عام طور پر لوگ کارڈ ، فالتو وقت میں کھیلتے ہیں اور ’’چونکہ‘‘ ہم نے 73سال میں ملک کے سارے مسائل حل کر دیے ہیں۔ آبادی سے لے کر تعلیم و صحت تک لہٰذا ہم کارڈ کھیل کر وقت پاس کر رہے ہیں اور وقت ہے کہ نکلا جا رہا ہے۔ آج کل پھر’’ سندھ کارڈ‘‘، اور’’ مہاجر کارڈ‘‘ کھیلا جا رہا ہے۔ کارڈ کھیلنے والے کےلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ سامنے والے پر نظر رکھےکہ وہ کونسا پتا پھینکتا ہے۔ اگر اس نے غلط پتا پھینک دیا تو آپ ہاری ہوئی بازی جیت سکتےہیں۔ اس لئے اگر آپ کو کارڈ کھیلنے نہیں آتے توبہتر ہے اس کھیل میں نہ کودیں۔
پچھلے 73سالوں میں ہم غلط کارڈ ہی کھیل رہے ہیں۔ قوم تو بن نہ پائے یکساں نصاب بنانے چلے ہیں۔ بھائی پہلے سمت کا تعین توکر لو۔ پہلے مذہبی کارڈ، لسانی کارڈ، فرقہ واریت کا کارڈ، قوم پرستی کا کارڈ، غداری اور حب الوطنی کا کارڈ کھیلنا بند کرو گے تو آگے بڑھو گے۔ اب تو مثبت کام کے لئے بھی کارڈ کا استعمال ہوتا ہے جیسا کہ صحت کارڈ۔
ریاست کا کام تھا ان سارے کاموں سے روکنا مگر وہ تو خود سب پر شک کرنے لگی۔ کبھی بنگالی پر، کبھی سندھی ، بلوچ، پختون، مہاجر حد تو یہ ہے کہ اگر پنجاب سے کوئی آواز اٹھی تو دبا دی گئی اور اسی چکر میں44سال میں ہی اکثریت اقلیت سے الگ ہو گئی۔سبق ہم نے پھر بھی نہیں سیکھا۔ کھیلتے رہے کارڈ کبھی ون یونٹ کے ذریعے تو کبھی مارشل لا کے ذریعے۔ کبھی جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا ،کبھی جئےسندھ کا تو کبھی جئے مہاجر کا۔ چونکہ کھیلنا نہیں آتا تھا تو ہمیشہ غلط پتا ہی پھینکا اور سامنے والا ہارتے ہارتے پھر جیت گیا، سندھ پیچھے رہ گیا۔ ذرا نظر ڈالیں اس وقت قومی سیاست پر تو ماسوائے پاکستان تحریک انصاف کوئی بھی جماعت چاروں یا کم ازکم دو صوبوں میں بھی نظر نہیں آرہی۔ اس پر جشن منانےکے بجائے سوچ بچار کی ضرورت ہے کہ اگر مسلم لیگ پنجاب کی حد تک ، پی پی پی سندھ اور وہ بھی اندرون سندھ تک ۔اے این پی خیبر پختونخوا تک محدود ہو جائے گی اور مذہبی جماعتیں مسلکی نظر آئیں گی تو ملکی وحدت کہاں جائےگی۔
المیہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی غلط کارڈ کھیلے گئے۔ جس کی ابتدا بانی مسلم لیگ نے اپنے ہی بنگالی رہنمائوں پر ’’شک‘‘ سے کی۔ کارڈ کیونکہ ایک کھیل ہوتا ہے اور پیسہ لگ جائے تو جوا بن جاتا ہے لہٰذا ہم نے ملک کو داؤپر لگا دیا۔ نتیجہ سامنے ہے۔ بائیں بازو کو خطرہ سمجھا اور اس کو کھیلنے کا موقع ہی نہیں دیا، پہلے کیمونسٹ پارٹی پر 50کی دہائی میں پابندی لگا دی پھر 70کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی پر، اس سوچ نے قوم پرستی کی سیاست کو فروغ دیا۔ دوسری طرف دائیں بازو کی سوچ جوایک زمانے میں نظریاتی طور پر قومی سوچ ہی تھی، مسلکی ہو کر رہ گئی جس کی وجہ سے فرقہ واریت کوفروغ ملا۔
سندھ کارڈ کی کہانی بھی دلچسپ ہے، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آئی تو انہوں نے تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کے ذریعے ایک طرف اگر جئے سندھ کے، سندھ کارڈ کو کمزور کیا تو دوسری طرف شہری علاقوں کے اردو بولنے والوں میں شدید احساس محرومی کو فروغ دیا جس کی آگے چل کر شکل مہاجر کارڈ کی صورت میں سامنے آئی۔ دلچسپ میں نے اس لیے کہا کہ ایک وقت آیا کہ بھٹو مخالفت میں بانی متحدہ الطاف حسین اور سائیں جی ایم سید کا اتحاد ہو گیا۔ اب حال ہی میں لندن سے خبریں آرہی ہیں کہ بانی کے گروپ میں اور کچھ سندھی اور بلوچ علیحدگی پسند گروپوں میں اتحاد ہو گیا ہے۔ حال ہی میں ہونےوالی کچھ دہشت گردی کی کارروائیوں کے تانے بانے وہاں ہی سے جوڑے جارہےہیں، دوسری طرف تحریک طالبان پاکستان اور کچھ دیگر کالعدم تنظیموں کے درمیان بھی ایسی ہی مشترکہ کارروائیوں کی اطلاعات ہیں۔
کراچی میں بارشیں کیا ہوئیں کہ ایک بار پھر وفاق سے کچھ آوازیں آنے کی دیر تھی کہ سندھ کارڈ اور کراچی صوبہ کی باتیں شروع ہو گئیں مظاہرے شروع ہو گئے تو دوسری طرف کراچی پر کانفرنس۔
بات بڑی سادہ سی ہے۔ وفاق نے ایک بار پھر غلط پتا پھینک دیا، رہی سہی کسر متحدہ نے پوری کر دی۔ تاش کی بازی پلٹ گئی اور بلاول بھٹو اور مراد علیٰ شاہ نے 1973 کے آئین اور 18ویں ترمیم کے دفاع کی باتیں شروع کر دیں۔ دوسری طرف وفاق اور سندھ حکومت نے اچھے بچوںکی طرح صفائی کرنے، سڑکیں بنانے ، پانی دینے اور سرکلر ریلوے پر اتفاق کر لیا تو پھر یہ سندھ کارڈ اور علیحدہ صوبہ کی باتیں کیوں۔ اس میں سے ریلوے کو چھوڑکر باقی کام تو بلدیاتی اداروں کے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں ۔ سندھ اور وفاق میں اتفاق تو میرٹ کے کلچر کو فروغ دینے پر ہونا چاہئے تھا۔پی پی پی اور سندھ حکومت چاہے تو اس مشترکہ کمیٹی کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ خود 2013 کے بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کر کے بلدیاتی اداروں کی خود مختاری بحال کرے۔ یہ کام نہیں کریں گے تو لوگ ان سےپوچھیں گے۔
ابھی ڈومیسائل کےمعاملے نے سر اٹھایا تو سندھ بھر سے بجا طور پر آوازیں آنا شروع ہو گئیں کہ یہ سندھ میں رہنے والوں کےساتھ زیادتی ہے۔ مگر جب گریڈ 1سے 15تک کی نوکریاں مقامی لوگوں کے بجائے دوسروں کو دینے کی بات آئی تو خاموشی چھا گئی۔ اس غیر قانونی کام پر تو اکاؤنٹینٹ جنرل نے بھی اعتراض اٹھایا۔ ایسے پتے نہ پھینکیں جس سے سب کانقصان ہو۔
کیا عام آدمی کو صحت، تعلیم ، پینے کا صاف پانی، اچھی ٹرانسپورٹ مل گئی ہے۔ بہتر سہولتیں ملیں، نوکری یاکاروبار ہوتا تو شاید آبادی پھر بھی کنٹرول ہوتی۔ یہ بات فخریہ بتانے کی نہیں کہ ہم 22کروڑ ہیں بلکہ کچھ شرمانے کی ہے۔سارے کام ہو جائیں پھر جتنا چاہے کارڈ کھیلیں۔ کبھی پاکستان کارڈ، کھیل کر بھی دیکھیں یاا س کا ٹھیکہ کسی اورکے پاس ہے؟
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ