لاہور کا الحمرا ہال نعروں اور تالیوں سے گونج رہا تھا اور اقبال بانو اپنے مخصوص انداز میں ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ سُنا رہی تھیں۔ جی یہ 80 کا سیاسی رُومانس تھا۔ آج چالیس سال بعد جب پلٹ کر ماضی کی طرف دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں غلطی کہاں ہوئی۔ ’منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے‘یہ وہ زمانہ تھا جب فیض امن میلہ محض ایک فیسٹیول نہیں تھا ایک اُمید تھی بہتر پاکستان کی، ایک روشن خیال جمہوری ریاست کی۔ جالب، فیض، فراز کی نظمیں اور غزلیں حوصلہ دیتی تھیں۔ وہ بڑی مختلف لڑائی تھی جو شاید آج پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے کیونکہ اُن میں سے بہت کم لوگ اس کا حصہ رہے ہیں۔دیکھتے دیکھتے 1985آ گیا۔ یہ سال بہت اہم تھا اور پچھلے دنوں وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے اُسے سیاست میں کرپشن کی بنیاد قرار دیا تو خیال آیا کہ آپ نے 2013کے بعد بلدیاتی الیکشن بھی غالباً غیرجماعتی بنیادوں پر کرائے تھے۔ مگر خیر بنیادی بات دُرست کی کہ سیاست میں کرپشن اُس کے بعد آئی۔
جس زمانے میں ہم فیض میلے میں جایا کرتے تھے تب لاہور بڑا مختلف تھا۔ عمران اُس وقت سیاست سے تو دُور تھے مگر اکثر بسنت کے موقع پر نواب صلاح الدین کی حویلی میں ہونے والے جشن میں شرکت کیا کرتے تھے۔1986 میں بے نظیر بھٹو کا تاریخی استقبال بھی دیکھنے کو ملا۔یہ اُن لوگوں کے لیے بھی ایک نئی اُمید کی کرن تھی جنہوں نے بدترین قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں تو یہ دن آیا۔ہاں وہ سب ایک سیاسی رومانس ہی تھا جب 1988 میں عام انتخابات کا اعلان ہوا ورنہ تو 28 مئی 1986 سے لے کر 17؍ اگست 1988 تک اس ملک میں کوئی حکومت ہی نہیں تھی۔الیکشن کا اعلان ہوا تو ایک دن میں نے، وسعت اللہ خان اور آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ (ہم تینوں کی دوستی کو بھی چالیس سال ہوگئے ہیں)نے سوچا چلیں کراچی تا اسلام آباد گاڑی میں جائزہ لے کر آتے ہیں۔ بس شاہ صاحب کی گاڑی تھی اور اُس وقت ڈرائیور کے فرائض بھی اُنہوں نے ہی انجام دیے۔ جب ہم غلام مصطفیٰ جتوئی، پیر پگارا (مرحوم) کے حلقوں سے گزرے تو اُن کے علاقوں میں بھی پی پی پی کے جھنڈے دیکھ کر حیرت ہوئی۔
ہم لاہور پہنچ گئے۔ انتخابی مہم کا آخری دن تھا۔ پہلے ہم اسلامی جمہوری اتحاد کے جلسے میں گئے۔ یہ وہی IJI تھی جس کو فخریہ انداز میں مرحوم جنرل حمید گل اپنی پیداوار کہتے تھے اور حسین حقانی اُن کے گن گاتے تھے۔ یہ وہی جلسہ تھا جس میں نجی جہاز سے بیگم نصرت بھٹو کی امریکی صدر فورڈ کے ساتھ ڈانس کی تصاویر پھینکی گئی تھیں۔ مقصد صرف عورت کی حکمرانی اور اُس کی تذلیل تھا۔ اتنے میں رات 12 بجے تو ہم سمجھے مہم ختم ہوگئی۔ ہمارے ایک پُرانے دوست عدنان عادل نے کہا آئیں آپ کو پی پی پی کے جلسے میں لے چلتا ہوں۔ میں نے کہا وقت تو ختم ہوگیا ہے۔ اُس نے کہا جس جگہ جلسہ ہو رہا ہے وہاں رات 12 بجے کے بعد ہی دن شروع ہوتا ہے۔ گانا، بجانا ختم ہوا تو جلسہ شروع ہوا۔ جہانگیر بدر کرتا دھرتا تھے۔
الیکشن ہوگئے حکومت بھی بن گئی مگر جمہوریت نہیں آئی البتہ جمہوریت کا تمغہ محترمہ نے جنرل اسلم بیگ کو دیا تو میں صرف یہ سوچتا رہا کہ یہی کرنا تھا تو ہزاروں کارکنوں کو قید و بند کی صعوبتیں کیوں اُٹھانا پڑیں۔ اس میں شک نہیں کہ بھٹو کی پھانسی سے لے کر بے نظیر کی شہادت تک اس خاندان نے لازوال قربانی دی مگر اس بات میں بھی وزن ہے کہ اگر محترمہ سے کچھ بنیادی غلطیاں نہ ہوتیں تو شاید آج سیاست مختلف ہوتی۔
ہمارا سیاسی رومانس ماند پڑنا شروع ہوگیا۔ ایک طرف جرنیلوں کا ایک گروپ شریف خاندان کی پشت پر تھا تو دُوسری طرف بقول جنرل حمید گل بے نظیر کو قابو کرنا تھا اُن کی اکثریت روکنی تھی۔آج ہارس ٹریڈنگ کی باتیں بہت ہوتی ہیں اور گالیاں بھی سیاست دان کو پڑتی ہیں اور بات بھی کوئی غلط نہیں مگر پیسہ سیاست میں وہ لائے اور ساتھ میں کاروباریوں کو بھی وہ لائے جن کا کام سیاست نہیں، حفاظت تھا۔اگر آپ کھلے دماغ سے 1985 سے لے کر 1999 تک کا جائزہ لیں تو بآسانی اندازہ ہو جائے گا کہ سیاست کو کاروبار بنانے والے غیرسیاسی لوگ تھے۔ محترم عمران خان جن دوNROs کا آپ اکثر ذکر کرتے ہیں، وہ مانگے نہیں گئے تھے بلکہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے دیئے تھے۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ عمران خان پاکستان کی سیاست میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی خراب طرزِ حکمرانی، کرپشن کی لازوال داستانوں کا فطری ردعمل ہے جس کی واضح مثال 30 اکتوبر 2011 کا لاہور میں جلسہ تھا۔ مجھے بھی اُس کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ 1986 میں اگر لوگ بے نظیر کی آمد کو اُمید سمجھتے تھے تو 2011 میں عمران خان کو تبدیلی کی علامت۔آصف علی زرداری کا اپنا طرزِ سیاست ہے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو نہیں ہیں نہ ہی بے نظیر بھٹو۔ وہ تو پولو کے اچھے کھلاڑی ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کے بقول جب 2008 میں وہ اُن سے اور چوہدری شجاعت سے ملنے آئے تو ایک ہی بات کی ’’میں نہیں چاہتا کہ ہمارے بچّے ایک دُوسرے کے دُشمن رہیں۔‘‘ جن، جن پر بے نظیر کو 18 اکتوبر 2007 کے حملے کا شک تھا سب کو شک کا فائدہ دے دیا گیا۔ اب اگر یہی ’بہترین انتقام ہے‘ تو یہ جمہوریت سے انتقام بھی کہا جا سکتا ہے۔سیاست میں مزاحمت کے بعد مفاہمت تو ہو سکتی ہے مصالحت نہیں۔
سیاست کا وہ رومانس تو اب ہائبرڈ جمہوریت میں باقی نہیں مگر کم از کم اس نظام میں اتنی طاقت تو ہے کہ آپ اِس کو جی بھر کے گالی دیتے ہیں۔ ضمیر فروش کہتے ہیں اور لوگ برداشت کرتے ہیں۔ آمریت میں بھی اسی جمہوریت کو گالیاں پڑتی ہیں۔ میں نے ہمیشہ تنقید کرنے والوں سے کہا کہ متبادل سامنے لائیں مگر جن کا کام حفاظت ہے وہ سیاست سے دُور رہیں ورنہ رومانس تو کبھی بھی واپس آ سکتا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ