آج کل صحافت ہو یا سیاست ہمارے سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والےوزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار پسندیدہ موضوع سخن ہیں ہر سیاسی پنڈت اور صحافتی سوداگر ان کی70-80دن کی کارکردگی سے نالاں نظر آتا ہے۔ کوئی کہتا ہے ان کو تجربہ نہیں کوئی کہتا ہے کہ صحافیوں کے سوالوں کا جواب نہیں دے سکتے کوئی کہتا ہے کہ ان کے پاس اختیارات نہیں اور پنجاب اختیارات کے 7یا8مرکزوں میں بٹا ہوا ہے ۔ اسی طرح کوئی کہتا ہے کہ صوبہ بڑا ہے اور وزیر اعلیٰ چھوٹا ۔غرض کہ جتنے منہ اتنی باتیں جتنے دانشور اتنے تجزیئے ہر کوئی اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے بندہ پوچھے کہ اگر وزیراعلیٰ چھوٹا ہے اور پنجاب بڑا تو کیا وزیراعلیٰ نے پنجاب کا بوجھ سر پر اٹھا نا ہے جو وہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے نہیں اٹھا سکے گا ۔ ہمارے موجودہ وزیر دفاع اور سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک بھی جسمانی لحاظ سے کمزور وزیراعلیٰ تھے جن کی کارکردگی کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف نے نہ صرف مرکز بلکہ پنجاب میں بھی میدان مارا ۔سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بھی تو تھے جو بولتے پہلے تھے اور سوچتے بعد میں تھے تب بھی سندھ چلتا رہا اور اب بھی چل رہا ہے ۔ہم10سال یہ رونا روتے رہے کہ ہم تخت لاہور کے غلام ہیں ایک ہی خاندان ہم پر قابض ہے سارے وسائل اپر پنجاب میں لگ رہے ہیں ہمارا کوئی پرسان حال نہیں اب جبکہ جنوبی پنجاب سے وزیراعلیٰ بنا ہے اور ہم غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزادی کی طرف بڑھ رہے ہیں تو پھر رونا دھونا کس بات کا کم از کم عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ بننے سے سیاست اور طاقت کا مرکز ایک ہی خاندان اور شہر سے نکل کر عام سیاسی ورکر اور
پسماندہ علاقے تک منتقل تو ہوا ہے باقی اللہ خیر کرے گا؟ جہاں تک تجربے کا تعلق ہے تو وقت اور حالات سب کو سکھا اور سمجھا دیتے ہیں شہباز شریف اگر 10سال پنجاب کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے تو یہ کوئی ایک دن کا کمال نہ تھا ان کو بھی حالات کو سمجھنے اور کنٹرول کرنے میں کئی برس لگے تھے ۔ موجودہ سپیکر صوبائی اسمبلی و سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی کارکردگی بھی 3-2سال بعد نظر آنا شروع ہوئی تھی حالات و معاملات کو سمجھنے میں کچھ وقت تو لگتا ہے 80-70دن میں تو فصل بھی پک کر تیار نہیں ہوتی نوزائیدہ بچہ بھی دو اڑھائی سال بعد رینگنا شروع کرتا ہے انسان چھوٹی سی دکان بھی بنائے تو اس کو سمجھنے کیلئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے یہ تو پھر امور مملکت ہیں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے گزرے ہوئے دنوں سے کافی کچھ سیکھ کر سمجھ لیا ہے اور شنید ہے کہ گزشتہ دنوں انہوں نے اسلام آباد کے سینئر صحافیوں سے اڑھائی تین گھنٹے کھل کر بات کی اور ہر سوال کا مفصل جواب دے کر سب تنقید نگاروں کو مطمئن کیا میرے نزدیک تونسہ جیسے پسماندہ ترین علاقے سے عثمان بزدار کا وزیراعلیٰ بننا تبدیلی نہ سہی تبدیلی کی ایک علامت ضرور ہے شاید ہم صرف اس چیز کو تبدیلی سمجھتے ہیں کہ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکلے یہ تبدیلی تو صرف مولائے کائنات ہی کر سکتے ہیں وزیراعلیٰ پر تنقید کرنیوالے سیاستدان ہوں یا صحافی ان کو مسئلہ عثمان بزدار سے نہیں مسئلہ ان خوابوں کے چکنا چور ہونے کا ہے جو مختلف لوگوں نے دیکھ رکھے تھے اور عثمان بزدار کی شکل میں وہ چکنا چور ہوگئے ہیں۔
فیس بک کمینٹ