مائیک ٹائسن کی کہانی ایک سنسنی خیز سفر کا احوال ہے، جس میں جذبے، کامیابیوں اور ناکامیوں کا ایک ایسا سنگم ہے جو شاید ہی کسی اور کے حصے میں آیا ہو۔ بروکلین کی گلیوں میں جہاں جرائم اور غربت کی دھند چھائی ہوئی تھی، وہیں ایک لڑکا تھا جو خوف کے سائے میں پل کر دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ ٹائسن کا بچپن کٹھن تھا ، وہ بدمعاشوں کے علاقے میں رہتے تھے، جہاں چوری، لوٹ مار اور لڑائیاں معمول کی بات تھی۔ خود ان کے الفاظ میں، "میرے اندر ایک خوف تھا، اور یہی خوف میرے لیے طاقت بن گیا۔” یہ خوف، جو کبھی ان کا عذاب تھا، جلد ہی ان کا سب سے بڑا اثاثہ بن گیا، اور وہ رِنگ میں قدم رکھتے ہی ایک ایسی طاقت بن گئے جس کا کوئی توڑ نہیں تھا۔
1986 میں، صرف 20 سال کی عمر میں، مائیک ٹائسن نے ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپیئن شپ جیتی اور تاریخ کا حصہ بن گئے۔ ٹریور برِبک جیسے عظیم باکسر کو دوسرے ہی راؤنڈ میں ناک آؤٹ کر کے انھوں نے دنیا کو یہ بتا دیا کہ "آئرن مائیک” کوئی معمولی کھلاڑی نہیں۔ ان کے مکوں میں ایسی طاقت تھی کہ جب وہ کسی حریف کو مارتے، تو وہ اُڑتا ہوا دکھائی دیتا۔ ٹائسن کا یہ شاندار آغاز باکسنگ کی دنیا میں ایک نیا باب تھا، اور وہ دنیا کے سب سے کم عمر ہیوی ویٹ چیمپیئن بن گئے۔
لیکن ٹائسن کی زندگی میں صرف کامیابیاں ہی نہیں، چیلنجز اور مشکلات بھی آئیں۔ 1990 میں، بسٹر ڈگلس کے ہاتھوں ان کی تاریخی شکست نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس شکست کے بعد ٹائسن نے اپنی ذاتی زندگی میں بھی مشکلات کا سامنا کیا، جیسے کہ 1997 میں ایوینڈر ہولی فیلڈ کے کان کاٹنے کا اسکینڈل، جس کے بعد ان کا باکسنگ لائسنس معطل کر دیا گیا۔ لیکن ان کا جذبہ کبھی کم نہیں ہوا۔ وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی گئے، جہاں انھوں نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام "ملک عبدالعزیز” رکھا۔ پھر، 1995 میں باکسنگ میں واپسی کے بعد، انھوں نے دوبارہ اپنے عالمی ٹائٹل جیتے، لیکن ان کی زندگی کے سیاہ اور سفید اب بھی ایک ساتھ چل رہے تھے۔اس کے بعد آتا ہے 2009 کا وہ دل ہلا دینے والا لمحہ، جب ان کی چار سالہ بیٹی ایکسرسائز مشین میں پھنس کر چل بسی۔ اس حادثے نے ٹائسن کو گہرا صدمہ دیا، لیکن وہ پھر بھی زندگی کی جنگ لڑتے رہے۔
اب، ہم آتے ہیں 2024 میں، جب مائیک ٹائسن کی زندگی کا ایک اور نیا موڑ آیا۔ اس بار وہ رنگ میں ایک یوٹیوبر، جیک پال کے ساتھ اُترے، جو ان سے 31 سال کم عمر کے تھے۔ 58 سال کی عمر میں، ٹائسن کی طاقت اور رفتار میں کمی آگئی تھی، لیکن ان کا نام ابھی تک باکسنگ کی دنیا میں ایک طوفان کی طرح گونج رہا تھا۔ جیک پال نے ٹائسن کو باآسانی شکست دی، اور اس لڑائی نے باکسنگ کے شائقین کو ہلا کر رکھ دیا۔ 78 مکوں کے مقابلے میں ٹائسن نے صرف 18 مکّے لگائے، اور ان کی تھکن اور سستی واضح نظر آئی۔
یہ میچ ایک طرح سے ٹائسن کی زوال پذیر حالت کی تصویر تھا، لیکن خود ٹائسن نے شکست کو بڑے تحمل کے ساتھ قبول کیا اور کہا، "میں کسی کو کچھ ثابت کرنے نہیں آیا تھا، بس اپنے لیے اس لڑائی میں شریک ہوا۔” اس کا کہنا تھا کہ وہ جانتے تھے جیک پال بہت تیاری کے ساتھ آئے ہیں، اور وہ اس میچ میں صرف اپنے لیے لڑ رہے تھے۔
اس فائٹ کا حقیقت پسندانہ پہلو یہ تھا کہ یہ ایک پروفیشنل باکسنگ میچ کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن سوالات اٹھنے لگے کہ آیا اس میں وہ شدت تھی جو ایک حقیقی باکسنگ میچ میں ہوتی ہے؟ جب کہ دونوں باکسرز نے کوئی ایسا مکا نہیں مارا جو حریف کو ناک آؤٹ کر سکے، یہ لڑائی اتنی دلچسپ تھی کہ لاکھوں افراد نے اسے براہ راست دیکھا، اور اس کے باوجود یہ سوالات مسلسل اُٹھتے رہے کہ آیا واقعی یہ ایک پروفیشنل فائٹ تھی۔یہ فائٹ مائیک ٹائسن کے کیرئیر کا ایک نیا باب تھا۔ جیک پال کے لیے یہ ایک اعزاز تھا کہ انھوں نے اپنے سے کئی گنا بڑے اور لیجنڈ باکسر کے ساتھ رنگ میں اُتر کر اس کے ساتھ لڑائی کی۔ دونوں باکسرز نے اپنے اپنے طریقے سے فائٹ کی، لیکن ٹائسن کی عمر اور صحت نے انہیں برتری حاصل کرنے سے روک دیا۔
یہ میچ باکسنگ کی دنیا میں ایک اہم سوال چھوڑ گیا: کیا یہ میچ واقعی باکسنگ کے معیار کے مطابق تھا؟ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم یہ تھا کہ یہ فائٹ مائیک ٹائسن کی زندگی کے عروج و زوال کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھی، جہاں انھوں نے اپنی شکست کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قبول کیا اور کہا، "میں جو کر سکتا تھا، اس پر مطمئن ہوں۔” یہ نہ صرف ان کی عظمت کا نشان تھا بلکہ ان کی انسانیت کا بھی۔
فیس بک کمینٹ