فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے 25 افراد کو سانحہ 9 مئی میں ملوث ہونے کے الزام میں دو سے دس سال تک کی سزائیں دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ باقی ماندہ ملزموں کے خلاف فیصلوں کا اعلان ضروری کارروائی پوری ہونے کے بعد کیا جائے گا۔حکومت نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے اسے مسترد کیا گیا ہے۔ وکلا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات پر سماعت پر شکوکت و شبہات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ ان تحفظات کا ااظہار آج 25 افراد کے خلاف فیصلوں کا اعلان ہونے کے بعد بھی سامنے آیا ہے۔ عام طور سے یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ فوجی عدالتوں کو آرمی ایکٹ کے تحت سول باشندوں کے کسی جرم پر مقدمہ سننے اور سزا دینے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔ کیوں کہ فوجی عدالتوں میں زیر سماعت آنے والے مقدمات میں سزا سنانے کی شرح تقریباً سو فیصد ہوتی ہے۔ اس طرح قانونی تقاضوں کے مطابق سزا دینے کی بجائے ربر اسٹیمپ کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔
حکومت نے قومی اسمبلی میں ایک قرار داد منظور ہونے کے بعد سانحہ 9 مئی میں ملوث بعض افراد کے معاملات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ البتہ اس بارے میں کوئی ٹھوس جواز فراہم نہیں کیا جاسکا۔ یوں تو فوجی عدالتوں میں شہریوں کے خلاف کارروائی کوئی نئی بات نہیں ہے کیوں کہ 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردی کے بعد اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت دوسال کے لیے فوجی عدالتوں کو دہشت گردوں کے خلاف مقدمات سننے کا اختیار دیا گیا تھا۔ البتہ اس بار کسی آئینی ترمیم کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ بلکہ ایک حکومتی فیصلہ کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے بعض معاملات فوجی عدالتوں کو ریفر کرنے کے فیصلے لے لیے گئے تھے۔ اس طرح کل 103 افراد کو سانحہ 9 مئی میں ملوث ہونے کے الزام میں فوج کے حوالے کیا گیا۔ گزشتہ سال کے آخر میں فوج نے ایسے بیس افراد کو رہا کرنے کا اعلان کیا تھا جنہیں ایک سال سے کم سزا ہوئی تھی اور آرمی چیف نے ان کی باقی ماندہ سزا معاف کردی تھی۔ تاہم باقی لوگوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں کارروائی جاری رہی لیکن سپریم کورٹ کے حکم سے فیصلوں کا اعلان نہیں کیاگیا تھا۔
اس قضیہ کی بنیاد سپریم کورٹ کے ججوں میں اس حوالے سے پائی جانے والی اختلافی رائے ہے۔ اس کا اظہار اس معاملہ میں سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں میں ہوچکا ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت اس وقت 7 رکنی آئینی بنچ اس معاملہ پر حتمی فیصلہ کرے گا۔ البتہ اس بنچ نے 13 دسمبر کو حکومت کی یہ درخواست منظور کرلی تھی کہ فوجی عدالتوں میں زیر سماعت 85 افراد کے خلاف فیصلوں کا اعلان کیا جاسکتا ہے تاہم یہ فیصلے اس معاملہ میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلہ کے تابع ہوں گے۔ سپریم کورٹ ابھی تک یہ حتمی فیصلہ کرنے میں ناکام رہی ہے کہ کیا کسی جرم میں ملوث ہونے پر شہریوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں کارروائی ہوسکتی ہے؟ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا پہلا فیصلہ ایک پانچ رکنی بنچ نے گزشتہ سال 13 دسمبر کو سنایا تھا۔ اس حکم میں سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے ٹرائل کی اجازت دینے والی آرمی ایکٹ کی شق 2 (1) ڈی کو کالعدم کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ اگر کوئی عام شہری ان واقعات میں کسی بھی طرح ملوث ہیں تو ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایسے تمام افراد کے خلاف مقدمات عام فوجداری عدالتوں کے سامنے پیش کیے جائیں۔
تاہم اس فیصلہ کے خلاف مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے اپیلیں دائر کیں اور 6 رکنی نئے بنچ نے گزشتہ سال 13 دسمبر کو یہ فیصلہ پانچ ایک کی اکثریت سے معطل کر دیا ۔ تاہم اس معاملہ پر حتمی فیصلہ مسلسل ’معطل‘ ہے اور اب سپریم کورٹ کا آئینی بنچ اس پر حتمی حکم صادر کرے گا۔ اس دوران میں حکومت نے وسیع تر سیاسی گٹھ جوڑ کے ذریعے تحریک انصاف کی شدید مخالفت کے باوجود 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرالی تھی۔ اس ترمیم کو عام طور سے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی ’خود مختاری‘ کو محدود کرنے کی کارروائی کہا جاتا ہے۔ تاہم ا س ترمیم یا کسی دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت بھی کوئی ایسی قانون سازی کرنے میں ناکام رہی ہے جس سے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات کا معاملہ ہمیشہ کے لیے طے ہوسکے۔
اصولی طور سے کسی بھی حکومت کو سیاسی مفادات سے بالا تر ہوکر یہ طے کرنا چاہئے کہ شہریوں کے جرائم پر فوجی عدالتوں پر انحصار کرنے کی بجائے ملکی عدالتی نظام کو فعال کیا جائے اور استغاثہ کو مستحکم کرکے کسی جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف سرعت سے فیصلے لیے جاسکیں۔ البتہ موجودہ حکومت کے علاوہ ماضی کی بھی ہر حکومت ایسی انتظامی یا عدالتی اصلاحات لانے میں ناکام رہی ہے ۔ نظام میں موجود نقائص کو دورکرنے کے لیے کوئی فوری شارٹ کٹ تلاش کیا جاتا ہے تاکہ درپیش مسئلہ حل کیا جاسکے لیکن اس معاملہ کو مستقل طور سے طے کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ یہی طریقہ 1997 میں نوازشریف کی سابق حکومت کے دوران انسداد دہشت گردی عدالتیں قائم کرکے اختیار کیا گیا تھا۔ اس وقت یہ طے کیا گیا تھا ان عدالتوں میں سرعت سے فیصلے ہوسکیں گے اور فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو فوری سزائیں دی جاسکیں گی۔ لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ عدالتیں بھی عام عدالتی نظام کا حصہ بن گئیں اور وہاں مقدمات پر کئی کئی سال تک فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ بعد میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں نواز شریف کو ایسی ہی ایک عدالت سے طیارہ اغوا کیس میں سزا دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ پولیس اکثر غیر متعلقہ معاملات میں دہشت گردی کی دفعات استعمال کرکے ایک طرف ان عدالتوں پر بوجھ میں اضافہ کرتی ہے تو دوسری طرف مناسب شواہد نہ ہونے کی وجہ سے اکثر معاملات میں جرم ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
سانحہ 9 مئی کے حوالے سے بھی یہی مشکل، تنازعہ کا اصل سبب بنی ہوئی ہے۔ حکومتوں کے زیرنگرانی کام کرنے والی پولیس، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور استغاثہ مناسب مقدمہ تیار کرنے اور قانون کے مطابق شواہد پیش کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ حکومت اس کمزوری کا جائزہ لے کر اسے دور کرنے کی کوشش نہیں کرتی لیکن سانحہ 9 مئی جیسے واقعہ کے بعد بعض لوگوں کو نشان عبرت بنانے اور خوف و ہراس کاماحول پیدا کرنے کے لیے فوجی عدالتوں سے سزائیں دلانے کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ حکومت اپنا تمام تر دباؤ استعمال کرکے کسی بھی طرح سپریم کورٹ سے اس معاملہ میں فوجی عدالتوں میں کیس بھیجنے کو درست تسلیم کرنے کا فیصلہ لینا چاہتی ہے۔ لیکن اپنا مقدمہ مضبوط کرنے اور مناسب شواہد تلاش کرنے کے لیے انتظامی مشینری کو فعال بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ تحریک انصاف چونکہ موجودہ حکومت اور کسی حد تک فوج کو براہ راست چیلنج کررہی ہے، ا س لیے شہباز حکومت کسی بھی طرح بعض لوگوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیں دلانا ضروری سمجھتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کی جارہی ہے کہ مستقبل میں حالات کی تبدیلی کی صورت میں موجودہ حکومتی انتظام میں شامل سیاسی پارٹیوں اور ان سے وابستہ لوگوں کو بھی کسی ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اس لیے کوئی ایسی غلط قانونی روایت قائم نہ کی جائے جو مستقبل میں دوسری سیاسی پارٹیوں و لیڈروں کے لیے مشکل کا باعث بنے۔
آئی ایس پی آر کی طرف سے فوجی عدالتوں کے فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ ’صحیح معنوں میں مکمل انصاف اُس وقت ہو گا جب 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو آئین و قانون کے مطابق سزا مل جائے گی‘۔ فوج کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ’ 9 مئی کو ہونے والےتشدد کے واقعات کا مقصد دباؤ اور جبر سے اپنے فیصلے مسلط کرانا تھا۔ یہ طریقہ سیاسی دہشت گردی کا شاخسانہ ہے۔ نفرت اور جھوٹ کی بنیادپر استوار کیے گئے بیانیہ کے نتیجے میں فوجی تنصیبات اورشہدا کی یادگاروں پر لوٹ مار و آتشزنی کے واقعات منظم کیے گئے‘۔ آئی ایس پی آر کا اعلامیہ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اگرچہ فوجی عدالتوں کی ذریعے بعض قصور واروں کو قانون کے مطابق سزائیں دیتے ہوئے انصاف فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے لیکن یہ بیان سیاسی پیغام لیے ہوئے ہے جس میں فوج واضح طور سے ایک فریق کے طور پر سامنے آئی ہے۔ بعض ملزموں کے لیے سزاؤں کا اعلان کرتے ہوئے سانحہ 9 مئی کے بارے میں جارحانہ رویہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ نہ ہی یہ ضروری تھا کہ اس موقع پر منصوبہ بندی کرنے والے لوگوں کو سزائیں دلانے کی خواہش ظاہر کی جاتی۔
اسی طرح 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے ’سیاسی دہشت گردی‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ ایسی اصطلاح ایک خاص پارٹی اور بعض لوگوں کے بارے میں متعصبانہ رائے مستحکم کرنے کا سبب بنے گی۔ گزشتہ سال 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے مظاہروں میں ضرور تشدد کا مظاہرہ ہؤا اور بعض کارکن و لیڈر قانون شکنی کے مرتب ہوئے۔ ان لوگوں کو ضرور اپنے کیے کی سزا ملنی چاہئے۔ لیکن ایک متنازعہ اور سیاسی طور سے اختلافی معاملہ کے لیے سیاسی دہشت گردی کی اصطلاح متعارف کرانے سے اس نفرت و تقسیم میں اضافہ ہوگا جس کا الزام فوج اور حکومت تحریک انصاف اوراس کی قیادت پر عائد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایس پی آر کا بیان سامنے آنے کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے بھی ایک بیان میں یہ کہنا ضروری سمجھا کہ ’ آج سیاسی دہشت گردی میں ملوث افراد کو سزائیں ہوئی ہیں۔ عمران خان ملک میں نفرت اور تقسیم پیدا کرنے میں ملوث ہیں۔ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ سانحہ 9 مئی کی منصوبہ بندی میں عمران خان ملوث تھے۔ آج کے فیصلے سے قانون کی بالادستی قائم ہوئی ہے اور یہ انتباہ دیا گیا ہے کہ ایسی گھناؤنے کارروائی میں ملوث ہونے سے بچا جائے‘۔
حکومت ضرور ملک میں تشدد اور غیر قانونی افراد کو نشان عبرت بنانے کے لیے کام کرے لیکن اس کے لیے مشکوک راستے اختیار نہ کیے جائیں اور نہ ہی ایسی اصطلاحات استعمال کی جائیں جو ملک میں سیاسی ماحول کو مزید تلخ کرسکتی ہیں۔ حکومت اور تحریک انصاف میں مذاکرات کی اطلاعات آرہی ہیں۔ حکومتی وزرا کو اس موقع پر ماحول خوشگوار بنانے اور دوریاں کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ان مذاکرات میں سانحہ 9 مئی بھی ایجنڈے کا حصہ ہوگا۔ مناسب ہوگا کہ اس موقع پر حکومت’ انصاف‘ کی فراہمی کے لیے فوجی عدالتوں کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کرے۔
( بشکریہ :کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ