قائد اعظم نے فرمایا۔ ایمان، اتحاد، تنظیم۔ یہ فرمان ہمیں پاکستان میں جگہ جگہ لکھا نظر آتا ہے۔ لیکن رشوت کے نوٹوں پر قائد اعظم کی تصویر کی طرح ہمیشہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ جناح صاحب کے سنہری الفاظ ہیں۔ ایمان کا مطلب شاید مذہب پر ایمان ہو لیکن میں اسے اپنی صلاحیتوں پر ایمان سمجھتا ہو ں یعنی self belief یا خوداعتمادی۔ اتحاد یعنی ٹیم ورک، انفرادیت نہیں بلکہ اجتماعیت۔ اور تنظیم، جس کا مطلب ہے منظم ہو کر کام کرنا، صرف کام، کام اور کام نہیں بلکہ منظم ہو کر کام۔
انگلینڈ میں ایک سال کے دوران میں نے ان تینوں چیزوں کا مشاہدہ کیا ہے اور انہیں سیکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں رہ کر میں نے یہی نتیجہ نکالا ہے کہ ہمارے ملک میں سب سے بڑا مسئلہ ہی chaos یا افراتفری کا ہے۔ یہاں جسے دیکھیں وہ منہ اٹھا کر کچھ بھی کرنے نکل جاتا ہے۔ اگر میں ڈاکٹر ہوں، تو ساتھ ہی میں فارماسسٹ، ماہر غذائیات، سوشل ورکر، فزیوتھراپسٹ، مائکروبائیولوجسٹ اور بہت سے دوسرے شعبوں کا ماہر بھی ہوں۔ میں ان شعبوں کے ماہرین سے مشورہ کرنا اور اس پر عمل کرنا اپنی توہین سمجھتا ہوں۔ بلکہ بعض اوقات تو میں جانتا ہی نہیں کہ یہ شعبے وجود بھی رکھتے ہیں اور کسی مریض کے علاج میں معاون بن سکتے ہیں۔ اسے تنظیم یا ٹیم ورک کہتے ہیں۔
بہت سے لوگ کہیں گے کہ اس کی وجہ پاکستان جیسے ملکوں میں معاشی عدم استحکام اور ناخواندگی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ تنظیم کی یہ شدید کمی ہمیں نام نہاد پڑھے لکھے اور خوشحال طبقے میں بھی کم و بیش اسی طرح نظر آتی ہے جیسی کہ یہ نچلے طبقے میں ہے۔ ہم انا کے مارے ہوئے لوگ ہیں۔ دوسروں کی اہلیت اور اہمیت کو تسلیم کرنا ہمیں قطعی طور پر نامنظور ہے۔ ہم لالچی اور خود غرض ہیں۔ ہمارا بس نہیں چلتا کہ ہم دوسروں سے سب کچھ چھین لیں اور اسے اپنے نام کر لیں۔ ہم ایک دوسرے کو ہمیشہ کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ہمیں کسی کمزور کا حق مارنے کے لیے بس ایک موقع ملنے کی دیر ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں کمزور انسان کے لیے غریب اور تنگدست ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ قابل، ایماندار، ہمدرد اور حساس انسان بھی ہمارے معاشرے میں ایک کمزور انسان سمجھا جاتا ہے۔
کئی دنوں سے میرے دل و دماغ پر وزیر داخلہ محسن نقوی سوار ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ ان کا پس منظر صحافت ہے۔ لیکن وہ کیسے وزیراعلی پنجاب، وزیر داخلہ، اور چیرمین پی سی بی وغیرہ بنے یہ کوئی نہیں جانتا۔ ماضی کی فوجی حکومتوں میں بھی ان جیسی شخصیات منظرعام پر آئی تھیں، جو اب فراموش کی جا چکی ہیں۔ محسن نقوی بھی فراموش کر دیے جائیں گے۔ لیکن ان کی یا ان جیسی شخصیات کی ہر وقت اس نظام میں موجودگی اور اعلیٰ ترین مناصب پر ان کی تعیناتی اس ملک کی بنیادی خرابی اور عدم استحکام کی وجہ ہے۔ نااہل افراد کی غیر مناسب تعیناتیاں جناح صاحب کے ایمان، اتحاد اور تنظیم کے فرمان سے سراسر انحراف ہے اور پاکستان کے دفتری نظام میں موجود تمام برائیوں کی جڑ ہے۔
میری نظر میں اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے منصوبہ بند اور انسان دوست معیشت اور سیاست۔ اس کے لیے ہمیں ایک انقلاب نہیں بلکہ شاید بہت سے انقلابات کی ضرورت ہے۔
فیس بک کمینٹ