مجھے یادہے کہ جب شیخ طاہررشید (مرحوم)اور حاجی محمد بوٹا (مرحوم) ڈسٹرکٹ جیل ملتان میں قید تھے تو پروڈ کشن آرڈر جاری کرنے کے بعد سید یوسف رضا گیلانی سپیکر قومی اسمبلی کی حیثیت سے انہیں جیل میں ملنے گئے تو میں بھی ان کے ہمراہ تھا کچھ دیر بعد جب میں نے گھڑی کی جانب دیکھا تو شیخ طاہر رشید اور حاجی بوٹا نے یک زبان ہوکر کہا ۔ اوئے مظہر! پریشان ہوگیا ہے۔ دیکھ ہم جیل میں پڑے ہیں جب شام 5بجے کے بعد ہمیں الگ الگ کمروں میں بند کیا جاتا ہے تو رات بسر کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ شیخ طاہر رشید کی وفات کے بعد ان کے بڑے بھائی شیخ سعید ہی خاندان کے بزرگ ہیں مگر مرحوم کے بڑے صاحبزادے محمد احمد طارق اور دیگر صاحبزادوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوئی ہے اللہ تعالیٰ سوگواروں کی حفاظت فرمائے۔
بزرگ سیاستدان جناب نوابزادہ نصراللہ خان (مرحوم ) کے ساتھی حکیم محمود خان( مرحوم ) بھی اپنی جگہ ایک تاریخ تھے ان کے وصال کے روزملک کے نامور صحافی دانشور و کالم نگار جناب حیدر جاوید سید نے حکیم محمود خان (مرحوم) کیلئے جو کالم لکھا وہ روز نامہ آفتاب ملتان میں شائع ہوا جس میں کوئی اضافہ تو نہیں کیا جاسکتا مگر حقیقت یہ ہے کہ مرحوم ایک نظریاتی کارکن تھے۔ میں نے انہیں تحریک نظام مصطفےٰ میں نوابزادہ نصراللہ خان کے ہمراہ دیکھا ان کے قریبی دوستوں میں سابق ایم پی اے شیخ خلیل احمد (مرحوم) اور خا ص طو پر پی ڈی پی کے دیرینہ ساتھی سینئر صحافی جناب سلیم ناز کے سسر شیخ محمد اسلم (مرحوم) شامل تھے۔ جبکہ ملتان میں حکیم محمود خان اور شیخ محمد اسلم کی جوڑی مشہو ر تھی۔ حکیم محمود خان کا روزنامہ ”آفتاب ” سے بھی تعلق رہا ہے ۔کیونکہ ان کی کئی تحریریں بھی شائع ہو چکی ہیں۔
حال ہی میں پیپلز پارٹی کے سابق ڈویژنل صدر صفدر عباس کھاکھی بھی اس دنیا سے کوچ کر گئے ہیں وہ زمانہ طالب علمی سے ہی پیپلز پارٹی میں شامل تھے ۔ اس طرح انہیں پارٹی کا بنیادی کارکن کہا جاتا ہے ۔ جب بھی پیپلز پارٹی ملتان ڈویژن کے صدر تھے تو تب سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے جس کا ذکر یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے ۔ مرحوم نے پارٹی کی کال پر گرفتاریاں دیں اور خاص طور پر ضیاء الحق کے دور میں جیل کاٹی۔ صفدر عباس کھاکھی نے ہمیشہ جارحانہ سیاست کی جس کے نتیجہ میں مرحوم پارٹی قیادت سے اگرچہ دور رہے مگر وہ پیپلز پارٹی کا قیمتی سرمایہ تھے۔ کبھی کسی نے ان کے تحفظات دور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ان کے قریبی دوست ملک قدیرا لحسن کے مطابق مرحوم صفدر عباس کھاکھی پیپلز پارٹی کو شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نظریہ کے مطابق چلانا چاہتے تھے مگر وہ پوری زندگی پیپلز پارٹی سے ہی وابستہ رہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک اور جیالے پیپلز لیبر بیورو جنوبی پنجاب کے صدر ملک بشیراحمد کا بھی انہی دنوں میں وصال ہوا وہ دل کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ان کا شمار بھی جذباتی سیاسی کارکنوں میں ہوتا تھا مگر وہ پیپلز پارٹی کے حقیقی جیالے اور شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھی تھے۔ پیپلز لیبر بیورو کی وجہ سے ان کا پارٹی کی فیڈرل کونسل کے رکن عبدالقادر شاہین سے مکمل رابطہ تھا وہ جنوبی پنجاب کے تنظیمی معاملات سے ان سے مشاورت میں ر ہتے تھے یوسف رضا گیلانی کے خاندان سے ان کا عقیدت کا تعلق تھا۔ اپنے وصال سے چند روز ملک بشیراحمد نے ملتان پریس کلب کے سامنے مزدوروں کے حقوق کیلئے احتجاجی مظاہرہ میں شرکت کے بعد مقامی فوٹو گرافر انیس احمد کی والدہ کی وفات پر فاتحہ خوانی کیلئے پریس کلب کے اندر آئے تو انہوں نے مجھے دعا کیلئے کہا اسی دوران مرحوم کی آنکھیں نم تھی ۔ وصال سے 2،3 روز قبل وہاڑی کی تنظیم نو کے سلسلے میں بھی عبدالقادر شاہین سے مشاورت کی اس لحاظ سے ان کا پارٹی کی جدوجہد میں طویل سفر ہے ان کے سفر آخرت کی ایک اہم بات ان کا صاف اور شفاف چہرہ تھا۔ جیسے دیکھ کر ان کے وصال کا یقین بھی نہیں ہوتا تھا پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ، سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ، جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود ، سینئر نائب صدر ، خواجہ رضوان عالم، جنرل سیکرٹری نتاشہ دولتانہ ، فیڈرل کونسل کے رکن عبدالقادر شاہین سمیت ملتان ڈویژن ، ضلع شہراور شعبہ خواتین نے ان کی وفات پر تعزیت کا اظہار کیا ۔ ملک بشیر نظریاتی کارکن اورریلوے کے غریب ملازم تھے پارٹی کی قیادت کو بہرحال سوگوار خاندان کی مدد کرنی چاہیے تاکہ مرحوم کے بچوں کی سرپرستی ہوسکے۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگرام نیلام گھر کے میزبان طارق عزیز کا تعلق اگرچہ ساہیوال سے تھا مگر انہوں نے غریب اور بے سہارا بچوں کی مدد کیلئے ملتان میں طارق عزیز ٹرسٹ کی بنیار رکھی اور صادق کالونی ملتان میں نہ صرف دفتر کا خود افتتاح کیا بلکہ اپنے خطاب میں ملتان سے بھرپور عقیدت کا اظہارکیا۔ طارق عزیز اگرچہ میڈیا سے تعلق رکھتے تھے مگر ملتان میں کئے جانے والے خدمت خلق اور خاص طور پر یتیم اور بے سہارا بچیوں کی سرپرستی کے کام کی تشتہیر نہیں کرتے تھے اس طرح سکولوں کے کمروں کی تعمیر سمیت ان کے ملتان میں نمائندے حاجی بشیرلوہار آج بھی ان کے مشن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سرائیکی صوبے کی تحریک ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں بھی موجود ہے ۔ جہاں سرائیکی رہنما حمید اصغر شاہین (مرحوم)اور ظہور دھریجہ کے قریبی ساتھی اور سرائیکستان قومی موومنٹ ڈیرہ اسماعیل خان کے رہنما سلیم شہزاد بھی انہی دنوں میں اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ مرحوم سید اختر سیال کی تنظیم سمیت سندھوملیار سے بھی وابستہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 9نومبر 1901کو وائسرائے ہندلارڈ کرزن نے ہمارے سرائیکی علاقہ کو پشتونوں کے ساتھ شامل کرکے ہم پر جو ظلم کیا اس کا آج تک شکار ہیں۔ یہ ہمارا سرائیکی وسیب ہے اور ہم اس وسیب کا حصہ بنیں گے ۔ پروفیسر شوکت مغل کے وصال کے بعد سلیم شہزاد کے وصال کا دکھ بھی پورے وسیب میں محسوس کیا جارہا ہے۔
روجھان سے تعلق رکھنے والے عاطف خان مزاری اگرچہ مسلم لیگ (ن ) کے سابق ایم پی اے تھے انہیں ان کے حقیقی بیٹے کے حال ہی میں قتل کیا یقینا یہ ان کا گھریلو معاملہ ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) میں رہتے ہوئے سرائیکی صوب کے حامی تھے۔ وہ مزاری ضرور تھے مگر مزاریوں کے پائے کے جاگیر دار نہیں تھے یہی وجہ ہے کہ ان کا عوام سے اور عوام کا ان سے قریبی رابطہ تھا۔ عاطف خان مزاری کی نماز جنازہ میں دوردراز سے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی ۔ ان کے وصال پر سرائیکی تنظیموں کا کہناتھا کہ یہ ہماری جدوجہد کا نقصان ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) جنوبی پنجاب صوبے کی حامی ہے اور عاطف مزاری ہماری توانا آواز تھے۔
محمدبن قاسم بلائنڈ ویلفیئر کمپلیکس کے بانی جناب قائم خان کرمانی اگرچہ خود بھی نابینا تھاے مگر نابینا افراد کیلئے ان کی خدمات کا کوئی ثانی نہیں وہ گذشتہ 56سال سے خدمات انجام دے رہے تھے کہ اللہ کو پیارے ہو گئے وہ خود پاک عرب کھاد فیکٹری میں ملازم تھے ایک دن انہوںنے سوچا کہ میں نابینا لوگوں کو ان کے کام کے ذریعے بینا بنادوں گا چنانچہ انہوں نے چوک کمہارانواں والا میں محمد بن قاسم سنٹر کا آغاز کیا قابل ذکر پہلو یہ ہے نابینا افراد کو ہاتھوں سے سفید چھڑی ، قائم خان کرمانی نے تھمائی تھی۔ اس ادارہ کے ذریعے نابینا افراد اعلیٰ تعلیم اور روزگار سے وابستہ ہوئے انہی کی جدوجہد کے نتیجہ میں نابینا افراد کیلئے سرکاری اداروں میں ملازمتوں کا کوٹہ منظور ہوا ۔ مرحوم نے دنیا کے 20سے زائد ممالک کا دورہ کیا اور بیرونی دنیا سے جدید آلات منگوائے ۔ قائم خان کرمانی کافی عرصہ سے بستر علالت پرتھے تو اسی دوران انہوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹی سعدیہ کرمانی کو وطن واپس بلاکرمحمد بن قاسم کی ذمہ داریاں سونپی جو آج تک اس ادارے کو بطریق احسن چلارہی ہیں ان کا عزم ہے کہ والدگرامی نے جوذمہ داریاں سونپی ہیں انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرونگی کیونکہ یہ اصل صدقہ جاریہ ہے ۔ سعدیہ کرمانی نے توقع ظاہر کی ہے جو ادارے میرے والد کی زندگی میں ہمارے ادارے کی سرپرستی کرتے تھے وہ آئندہ بھی تعاون جاری رکھیں گے ۔ روزنامہ ”آفتاب”نے قائم خان کرمانی کی جدوجہد کے سفر کے آغاز کی سب سے پہلی خبر بھی نمایاں طور پر شائع کی تھی اور 22جون 2020کو جب قائم خان کرمانی کا وصال ہوا تو سب نمایاں خبر روزنامہ ”آفتاب” میں ہی شائع ہوئی ۔ ہمارے ادارے کے چیف ایڈیٹر جناب ممتاز احمد طاہر اور گروپ ایڈیٹر جناب اسد ممتاز درددل رکھنے والی شخصیات ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ سعدیہ کرمانی سے روز نامہ ”آفتاب” کا تعاون حسب سابق جاری رہے گا۔
یونائیٹڈ ریلیف فاؤنڈیشن آف دی بلائنڈ کے چیئرمین متعدد کتابوں اور ماہنامہ آڈیو ٹائمز کے چیف ایڈیٹر جناب قاضی نوید ممتاز جو خود بھی نابینا تھے کا بھی جون کے مہینے میں وصال ہوا ہے۔ قاضی نوید ممتاز انتہائی ملنسار شخصیت کے مالک تھے ۔ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف ہر طبقہ کے لوگ کرتے ہیں ۔ انہوں نے 15سال قبل اپنے ادارہ کی بنیاد رکھی ۔ اب ملک بھر میں ان کی شاخیں جبکہ ایک گلاسکو میں بین الاقوامی برانچ بھی کام کر رہی ہے۔ قابل ذکر پہلو یہ ہے ماہنامہ میگزین آڈیو ٹائمز کی تیاری میں مرحوم کا اگرچہ بہت بڑا حصہ شامل ہوتا تھا مگر اس میگزین کی تمام تر تیاری کا کام سینئر صحافی جناب اسرار چشتی ایک عرصہ سے بطریق احسن اداکرر ہے ہیں بلکہ میں نے ایک بار قاضی نوید ممتاز (مرحوم) سے کہا کہ آپ کا میگزین ایک مکمل دستاویز ہے جس سے ہم بھی رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔ ایک بار میں قاضی نوید کے ہاتھوں ایوارڈ بھی وصول کر چکا ہوں۔
جماعت اسلامی جنوبی پنجاب کے نائب امیر چوہدری عزیز لطیف کا وصال بھی گذشتہ روز ہوا (مرحوم) جماعت اسلامی مرکزی شوریٰ کے ممبراورخانیوال کے بھی امیر رہے۔ مرحوم جماعت اسلامی جنوبی پنجاب شعبہ تربیت کے رہنما تھے۔ ان کی پارٹی سے نظریاتی وابستگی کے اعتراف میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور نائب امیر لیاقت بلوچ لاہور سے تعزیت کیلئے خانیوال آئے۔ چوہدری عزیز لطیف بھی جماعت اسلامی کی پارٹی پالیسی کے مطابق جنوبی پنجاب علیحدہ صوبے کے حامی تھے اور متعددبار اپنی آواز بلند کرچکے ہیں۔ بہرحال موت بر حق ہے اسی لیے یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ اللہ کی رضا اور قدرت کا نظام ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ جانے والوںکا نہ تو خلا پر کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ساری زندگی کوئی کسی کو یادرکھتا ہے بلکہ ایک یا دو تعریفی ریفرنس یا ایک 2سال برسی کے بعد پچھلا سبق بھول جاتا ہے اور آگے کا سبق یاد دلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ روزنامہ ”آفتاب ” نے کوشش کی ہے کہ کم از کم ان نامور اور قابل قدر شخصیات کی خدمات کو نوجوان نسل کے سامنے پیش کیا جائے یقینا ہم ان شخصیات کی خدمات کا حق تو ادا نہیں کرسکے مگر دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کے صدقے ان تمام مرحومین کو جواراحت میں جگہ عطا فرمائیں اور لواحقین و سوگوار کو ان کا مشن جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ ان شخصیات کی موت پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ جون ملتان کو سوگوار کر گیا ہے ۔
فیس بک کمینٹ