طارق روڈ کے اطراف کی گلیوں میں گھومنا مجھے اچھا لگتا تھا۔ وہاں پرانے ناظم آباد جیسا ماحول ہے۔ میں نے کسی دور میں ایک سروے کمپنی میں ملازمت کی تھی جس کا دفتر طارق روڈ کی ایک ذیلی گلی میں تھا۔ میں نے صرف دو ڈھائی ماہ اسمار انٹرنیشنل میں کام کیا ہوگا لیکن اس دوران میں گلیوں کی خوب خاک چھانی۔ پیراماؤنٹ بکس تھوڑے فاصلے پر اسی علاقے میں ہے، اگرچہ خالد بن ولید روڈ کے قریب ہے۔
میں بہت سال بعد ان گلیوں میں گھسا تو پریشانی ہوئی۔ پیدل گھومنا الگ معاملہ ہے، کار چلانا الگ بات۔ ہر گھر کے آگے چار گاڑیاں کھڑی ہوں تو آنا جانا مشکل ہوجاتا ہے۔ مجھے کئی چکر لگانے کے بعد ایک جگہ کار پارک کا موقع ملا۔میں نے فون میں اس پتے پر نظر ڈالی جہاں مجھے پہنچنا تھا۔ ایک دو گلیاں بھٹکا اور ایک دو لوگوں سے پوچھا، آخر اس گھر پر پہنچ گیا۔ بڑا سا مکان تھا۔ گھنٹی بجائی تو ایک صاحب نکلے۔ میں نے آمد کی غایت بیان کی۔ انھوں نے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔میں ان کے پیچھے پیچھے سیڑھیاں چڑھا۔ قدیم زمانے کا مکان، پرانا زینہ۔ اوپر چڑھنے کے بعد انھوں نے بائیں جانب ایک کمرے تک رہنمائی کی اور خود باہر رک گئے۔میں جھجکتا ہوا اندر داخل ہوا۔ کمرے میں تھوڑا سا اندھیرا اور بہت سی اداسی پھیلی ہوئی تھی۔ بیچ میں ایک مسہری بچھی تھی جس کے سرہانے دو چار کتابیں دھری تھیں۔ فہمیدہ ریاض ایک کونے پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھی تھیں۔ شاید پانی کے ساتھ کوئی دوا نگل رہی تھیں۔
یہ گزشتہ سال میرے امریکا آنے سے پہلے کی بات ہے۔
میں نے کہیں سے فہمیدہ ریاض کا نمبر لے کر فون کیا تھا۔ ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو انھوں نے بے حد بے تکلفی سے پوچھا، ”مبشر! تم میرے گھر کیسے آؤ گے؟ تمھارے پاس گاڑی ہے؟ “ میں نے جواب دیا، جی ہاں تو انھوں نے کہا، ”کیا تم مجھے فلاں جگہ لے چلو گے؟ “ مجھے اب یاد نہیں کہ وہ کہاں جانا چاہتی تھیں لیکن میں نے فوراً کہا تھا، ”کیوں نہیں! “ انھوں نے مجھے گھر کا پتا بتادیا۔
لیکن جب میں ان سے ملنے پہنچا تو وہ کہیں جانے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ شاید وہ بھول چکی تھیں کہ انھوں نے مجھ سے کہیں لے جانے کا وعدہ لیا تھا۔ لیکن وہ مجھ سے ایسے ہی ملیں جیسے بہت بار مل چکی ہیں۔ شاید وہ سب ہی سے ایسے ملتی ہوں گی۔اس سے پہلے صرف دو بار ان سے تھوڑی سی گفتگو ہوئی تھی۔ ایک بار کراچی آرٹس کونسل میں، جب میں نے ان سے ایک کتاب پر دستخط کروائے تھے۔ دوسری بار کراچی لٹریچر فیسٹول کے ناشتے کی میز پر، جہاں انھوں نے علی اکبر ناطق سے ان کی کوئی نظم فرمائش کرکے سنی تھی۔ یہ کوئی ایسی ملاقاتیں نہیں تھیں کہ انھیں میرا نام تک یاد رہتا۔سچ یہ ہے کہ اس دن فہمیدہ ریاض سے مل کر دل دکھا۔ وہ بہت تنہا معلوم ہوئیں۔ میں ان کی دو تین کتابیں ساتھ لے کر گیا تھا۔ ایک کا نام ”تم کبیر“ تھا۔ کبیر ان کے بیٹے کا نام تھا جو جوانی میں انتقال کرگیا۔ انھوں نے کبیر کی یاد میں نظم لکھی تھی۔ ادیب دوسروں کے ہاتھ میں اپنی کتابیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ وہ میرے ہاتھ میں کتاب دیکھ کر افسردہ ہوئیں۔ انھیں بیٹا یاد آگیا۔ انھوں نے پتا نہیں کس دل سے اس کتاب پر دستخط کیے۔ایک ملازمہ گلاس میں شربت لے آئی۔ میں نے ان سے ایک دو کتابوں پر بات کی اور چند سوال کیے جن کا انھوں نے روایتی خوش اخلاقی سے جواب دیا۔ میں نے جلدی جلدی مشروب ختم کیا اور ان سے اجازت چاہی۔ رخصت ہونے سے پہلے انھیں اپنی کتابیں پیش کیں۔
”میں انھیں پڑھوں گی۔ میں انھیں ضرور پڑھوں گی مبشر! “ انھوں نے معصوم بچوں کی طرح وعدہ کیا۔ میں خوش ہوگیا۔ اتنا خوش کہ وہاں سے دو گلیاں دور اپنی کار تک گنگناتا ہوا گیا۔اگلے اتوار کو میں فریئر ہال میں پرانی کتابوں کے بازار پہنچا تو ایک دکاندار نے مجھے ایک طرف لے جاکر کہا، ”میرے پاس ایک شخص کا مال آیا ہے۔ بہت سی کتابیں ہیں۔ آپ شوقین ہیں۔ آپ پہلے دیکھ لیں۔ “وہ زیادہ کتابیں نہیں تھیں۔ ستر پچھتر ہوں گی۔ شاعری کی کتابیں، ناول، انسانی حقوق کمیشن کے مجلے۔ لیکن ان میں اپنی کتابیں دیکھ کر میں چونکا۔ ایک کتاب کھول کر پہلا صفحہ دیکھا۔ اس پر لکھا تھا، فہمیدہ ریاض کے لیے محبت کے ساتھ، مبشر زیدی !
فیس بک کمینٹ