پاکستان میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم آہستہ آہستہ زور پکڑ تی جا رہی ہے اس حقیقت کے برعکس کہ ہر چیز آئینی طریقہ کار اور وقت کے مطابق ہو رہی ہے پھر بھی ایک نامعلوم خوف پایا جاتا ہے غیر یقینی کا ماحول ہے کہ انتخابات کسی بھی سطح پر ملتوی یا کسی رکاوٹ کا شکار ہو سکتے ہیں۔؟ملک میں سیاسی گہما گہمی کے ساتھ عدلیہ کا فعال کردار بھی جاری ہے اعلی عدلیہ صاف پانی سے لے کر حکمرانوں اور سیاسی رہنماﺅں کی کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کرنے سے متعلق مقدمات کی سماعت کر رہی ہے ، عدلیہ کی اس فعالیت کو سراہا بھی جا رہا ہے اور تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے ۔ ملکی معیشت حکمرانوں کے بلند و بانگ دعوﺅں کے برعکس غیر تسلی بخش ہے کرنسی مارکیٹ میں امریکی ڈالر بے قابو ہو چکا ہے اور پاکستانی روپے کی بے قدری بڑھتی جا رہی ہے ، زرمبادلہ کے ذخائر کا گراف مسلسل نیچے آ رہا ہے ، غیر ملکی قرضے بڑھ چکے ہیں افراط زر بھی اپنی جگہ موجود ہے اور کئی ترقیاتی منصوبے غیر شفاف ہیں ۔ اشیاءصرف کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔درآمدات اور برآمدات کا توازن بگڑ چکا ہے اسٹاک مارکیٹ میں مصنوعی تیزی پیدا کر کے اسے مندی میں تبدیل کر دیا جا تا ہے گزشتہ عام انتخابات میں عوام کو غربت ، بیروز گاری ، لوڈشیڈنگ ، دہشتگردی اور جرائم کے خاتمے کی نوید سنائی گئی تھی لیکن پانچ سال گزرنے کے باوجود عوام انہی مسائل اور مشکلات سے دو چار ہیں جن سے وہ 2013ءمیں تھے انہیں کوئی ریلیف نہیں ملا ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ حکمرانوں کا تعلق پنجاب ، سندھ ، کے پی کے یا بلوچستان کے ہوں وہ اپنے زیادہ تر انتخابی دعوے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ شدید گرمی کے باوجود بعض جگہوں پر لوڈشیڈنگ اب بھی جاری ہے ۔ بیروزگاری کا عفریت نوجوانوں کو جرائم کی دلدل میں دھکیل رہا ہے ۔
پاکستان کی سیاسی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ عام انتخابات میں صرف دو سیاسی جماعتوں کے مابین مقابلہ ہو گا۔ عمران خان نے نہ صرف نوازشریف کو تاحیات نااہل کروایا بلکہ پوری نواز لیگ کو تقسیم کر کے رکھ دیاہے ۔ نواز لیگ کے متعدد رہنما اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں ۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی تبدیلی کی لہر نے پیپلز پارٹی کی سیاست کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے ۔شاہ محمود قریشی ، بابر اعوان اور فواد چودھری کے بعد ندیم افضل چن ، فردوس عاشق اعوان ، نذر محمد گوندل ، صمام بخاری ، راجہ ریاض ، اشرف سوہنا سمیت پیپلز پارٹی کے درجنوں رہنما اور ہزاروی کارکنان تحریک انصاف کے تبدیلی کارواں کا حصہ بن چکے ہیں ۔ اس سال کے عام انتخابات میں مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ پیپلز پارٹی جس کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے پنجاب میں رکھی تھی آج پنجاب میں الیکشن لڑنے والے امیدواروں کی تلاش میں ہے ۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی سیاسی تنہائی اور بے بسی کا یہ عالم ہے کہ پیپلز پارٹی راو لپنڈی کے سینئر رہنما عامر فدا پراچہ نے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی سے بغاوت کی اور پیپلز پارٹی کے مخالف امیدواروں کی حمایت کی مگر پیپلز پارٹی نے انہیں برطرف کرنے کی بجائے سابق صدر پاکستان اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینزکے صدر آصف علی زرداری کا ترجمان مقرر کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی پنجاب میں اب یہ حالت ہے کہ وہ کسی بھی رہنما کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ۔
2013ءکے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف ملک کی تیسری اور پنجاب کی دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی مگر اس وقت تحریک انصاف کو ملک کی مقبول ترین جماعت کہا جا سکتا ہے ۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے نتائج نواز لیگ کے لیے زیادہ بہتر ثابت نہیں ہو ں گے لیکن تحریک انصاف خیبر پختونخواہ کی طرح صوبہ پنجاب میں بھی اتحادیوں کی مدد سے پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے ۔ جو جماعت پنجاب سے اکثریت حاصل کرے گی وفاق میں بھی اسی جماعت کی حکومت بننے کے امکانات روشن ہو ں گے ۔ پیپلز پارٹی جو اس وقت ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے شاید پنجاب میں چوتھی پوزیشن بھی حاصل نہ کر سکے کیونکہ پیپلز پارٹی کے بہت سے اہم رہنما اور سابق اراکین اسمبلی صوبے کی بدلتی سیاسی صورتحال دیکھ کر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں ۔ پنجاب کی موجودہ سیاسی صورتحال دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ نوازلیگ سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی کا ہوا ہے کیونکہ مسلم لیگ نواز سے صرف نوازشریف مائنس ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف پوری پیپلز پارٹی پنجاب میں مائنس ہو چکی ہے ۔گزشتہ ایک سال کے عرصہ میں پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج پر نظر ڈالی جائے تو نواز لیگ نے لاہور اور لودھراں میں تحریک انصاف کو شکست دی ، تحریک انصاف کے امیدوار بھاری ووٹ لیکر دوسری پوزیشن حاصل کر سکے لیکن عام انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدواروں کا پلڑا بھاری ہونے کے کافی امکانات ہیں ۔ سابق صدر آصف علی زرداری کا یہ دعوی ہے کہ پنجاب کا اگلا وزیراعلی جیالا ہو گا لیکن چند ماہ قبل ہونے والے NA-120کے ضمنی انتخابات پر نظر ڈالی جائے تو وہاں ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک پاکستان نے بھی پیپلز پارٹی سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے۔
فیس بک کمینٹ