ٹی وی پر ایک ہونہار اینکر نے شیخ رشید سے پوچھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کیسے انسان ہیں۔ شیخ رشید نے کہا اور بہت پیار سے کہا کہ وہ میٹر آدمی ہیں۔ پہلے تو مجھے بھی تھوڑا سا پیار آیا کیونکہ شیخ رشید صاحب کے لہجے میں وہ شفقت تھی جو ماں کے لہجے میں ہوتی ہے، جب بیٹا تین بار فیل ہونے کے بعد پاس ہوتا ہے یا جب رسہ گیر کا بیٹا اپنی پہلی بھینس چوری کر کے گھر لاتا ہے۔
شیخ رشید نے عید کے سیزن میں ہر ٹی وی چینل کو برابر عیدی دی ہے۔ پہلے عید شوز پر فلمی ستاروں وغیرہ کو بلایا جاتا تھا، اب کون سا شان اور کون سی ریما۔ ہر طرف شیخ صاحب ہی شیخ صاحب تھے۔
وہ زبان کا کھاتے ہیں۔ سچ بولیں جھوٹ بولیں بات میں مصالحہ ہوتا ہے۔ ہم چسکے لیتے جاتے ہیں۔ ویسے بھی وہ پاکستانی سیاست کے وہ فنکار ہیں کہ انھیں سات خون معاف ہیں۔
لیکن انھوں نے جنرل باجوہ کو میٹر کہا تو مجھے اچھا نہیں لگا۔ اگر توہینِ باجوہ کا کوئی قانون ہوتا تو میں فرمائش کرتا کہ شیخ صاحب پر لاگو کیا جائے (یہ جانتے ہوئے بھی کہ شیخ صاحب پر کرمنل کوڈ، منطق، گرامر یا اخلاقیات کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔
جو شخص پاکستان کے ایٹمی دھماکے والے دن دبئی نکل لے اِس ڈر سے کہ کہیں پٹاخہ اِدھر اُدھر ہو گیا تو مارا جاؤں گا۔ اُس پر آپ کیا قانون لاگو کریں گے۔)
پاکستان میں میٹر عام طور پر اُس کو کہتے ہیں جو غصے کا ذرا تیز ہو، قاعدہ قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہو، بڑے چھوٹے کا لحاظ نہ کرتا ہو، جو من میں آ جائے کر گزرے، نتیجے کی پرواہ نہ کرنے والا۔ یہ خوبیاں پرانی ایم کیو ایم کے سیکٹر انچارج کو تو زیب دیتی ہیں ایک سپہ سالار کو نہیں۔
میرا بھی ایک دوست باجوہ ہے اسے بھی ہم کبھی کبھی میٹر کہتے ہیں لیکن وہ شام کے ایک خاص وقت پر آ کر میٹر ہوتا ہے۔ ویسے بھی میرے دوست باجوہ اور قمر باجوہ میں بہت بڑا فرق ہے۔ ایک تھوڑا سا شوقین اور رنگین مزاج کاروباری ہے جبکہ دوسرا دنیا کی سب سے بڑی اسلامی فوج اور اسلامی تاریخ کی بہترین فوج کا سپہ سالار ہے۔
اسے میٹر کہنے سے ہمارے دشمنوں کو یہ موقع ملے گا کہ دیکھیں اب تو گھر سے ہی گواہی آ گئی۔ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ پاکستان کی فوج تھوڑی میٹر ہے امریکہ کے ساتھ بھی کھڑی ہے اور ان کو شکست دینے والے طالبان کے ساتھ بھی۔ دشمن کب کا شہ رگ کاٹ کر جا بھی چکا اور یہ ابھی مکا دکھا کر سوچ رہی ہے کہ کس کو مارے۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ فوج پاکستان کا سب سے منظم ادارہ ہے (اسی لیے واپڈا سے لے کر پی آئی اے تک سب اداروں کو اپنے سربراہ فوج سے ادھار لینے پڑتے ہیں) اس میں کوئی میٹر ترقی کر کے سپہ سالار بن ہی نہیں سکتا۔ صرف اور صرف میرٹ پر۔
ہاں البتہ اگر نوکری کی مدت پوری ہونے پر ایکسٹینشن میں کوئی مسئلہ ہو تو سپہ سالار کا میٹر گھوم سکتا ہے۔ جیسے راحیل شریف کا میٹر گھوما تو انھوں نے ہم سے منھ پھیر لیا اور سعودی شہزادوں کی نوکری پکڑ لی۔ لیکن قرائن یہی بتاتے ہیں کہ باجوہ دھیمے مزاج کے مالک ہیں۔
جب سپریم کورٹ نے کہا کہ ان کی ایکسٹینشن کا کوئی قانون نہیں ہے تو آپ نے کوئی ٹینشن نہیں لی۔ سب سیاستدانوں کو ہانکا لگایا اور بتایا کہ بھائیوں قانون نہیں ہے تو بناؤ، آخر یہ قانون ساز اسمبلیاں، یہ وزارتیں، یہ نیب کے جیل خانوں کا کیا مقصد ہے۔
اور دنیا نے دیکھا کہ قانون اتنی تیزی سے بنا جتنی تیزی سے اپنے کیریئر کے آخری برسوں میں شاہد آفریدی پویلین لوٹا کرتے تھے۔
پاکستان میں پہلے ہی سے ایک مستند اور ہر دلعزیز میٹر موجود ہے تو یہ ذمہ داری بھی باجوہ صاحب پر ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔
کرکٹ سے یا کرکٹ کی تاریخ سے ناواقف ہوں لیکن گذشتہ دنوں کہیں پڑھا کہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں صرف ایک کپتان ہوا جس نے اپنی اننگز اس وقت ڈکلیئر کر دی جب اس کا اپنا سکور 90 سے اوپر تھا۔ یعنی اپنی سینچری کا نہیں سوچا صرف ٹیم کا سوچا۔
وہ کپتان اب ہمارا وزیر اعظم ہے۔ حاسدین کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ اپنی اننگز ختم ہونے پر بھی واپس نہیں گئے بلکہ ایک اور باری لے لی اور ڈنڈا اب بھی انہی کا چلتا ہے۔ لیکن میرا کپتان ہے کہ ڈٹ کر کھڑا ہے۔ چاہے نتھیا گلی کی پہاڑیوں پر ہی کھڑا ہو۔
یہ ہوتا ہے لیڈر، یہ ہوتا ہے میٹر۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ