معا شر ے کے متعین ر ویو ں نے عو ر تو ں کے کر دا ر اس کی تر قی کے را ہ میں بہت ر کا و ٹیں بھی حا ئل کی ہیں اگر انسانوں کو صنفی تر قی کی بنیا د پر مختلف کر دا ر سو نپ کر ایک حصا ر میں بند کر دیا جا ئے اور انہیں وسائل اور موا قع بھی یکسا ں نہ د ئے جا ئیں تو ان کا ا ثر نہ صرف ان کی اپنی ز ندگی پر پڑتا ہے بلکہ اس کے منفی ا ثرا ت پو ر ے معا شر ے پر پڑ تے ہیں۔کیو نکہ و ہ معا شر ے کی تر قی میں بر ا بر کا حصہ نہیں لے سکتے،مثلایہ سمجھ لینا کہ عورتوں کا بنیا د ی کا م چو نکہ گھر اور خا ندا ن کی د یکھ بھا ل کر ناہے اس کی وجہ سے بچی کی تعلیم پر کو ئی تو جہ نہیں د ی جا تی ۔ جنسی کردار تمام معاشروں میں ایک سا ہوتا ہے۔جیسے چاہے وہ عورت افریقہ کی ہو یا ایشیاء کی ، مسلمان ہو یا ہندو، شیعہ ہو یا سُنی، راجپوت ہو یا سید۔جبکہ ہو سکتاہے کہ ایشیاء کی عورت کو افریقہ کی عورت کے مقابلے میں گھر سے باہر کام کرنے کی زیادہ آزادی ہو نیز یہ فرق مختلف معاشروں میں ان معاشروں کے معاشی ، سماجی اور سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے مختلف ہو سکتے ہیں اور تاریخ کے ساتھ بدلتے ہیں جیسے کسی زمانے میں کہا جاسکتاتھا کہ عورتیں جہاز نہیں اُڑا سکتیں یا مرد گھر کا محافظ ہوتا ہے ، یہ بات اس صنفی اور جدیدٹیکنالوجی کے دور نے غلط ثابت کر دی ہے کیونکہ اب ثابت ہو گیا ہے کہ پستول لے کر گھر میں گھسنے والے کے سامنے مرد بھی اتناہی بے بس ہے جتنی کہ عورت۔صنفی کردار معاشرہ دیتا ہے اور پیدا ہوتے ہی یہ کردار مضبوط کئے جاتے ہیں۔ان کے پروان چڑھنے اور مضبوط کرنے میں خاندان ، تعلیمی نظام ، ذرائع ابلاغ، قوانین اور مذہبی تشریحات اپناکردار ادا کرتے ہیں۔مردوں اور عورتوں کو سماج کی جانب سے دیئے گئے فرائض اور ذمہ داریاں پیدائش ہی سے معاشرہ طے کر دیتا ہے ا ن کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔یہ مخصوص کردار مرد اور عورت کے درمیان رشتے/ تعلق کا تعین کرتے ہیں۔اس رشتے کے اثرات ہمیں مختلف شکلوں میں اور مختلف سطحوں پر نظر آتے ہیں۔ترقی کے عمل میں د و نو ں صنفیں تبھی حصہ لے سکتی ہیں جب ہر طر ح کی تعصبا نہ سو چ کو ختم کیا جا ئے۔ہر سطح پر برا بر ی کے یکسا ں موا قع فرا م کئے جا ئیں۔لو گو ں میں یہ شعو ر پیدا ہو کہ انہیںمعا شر ے کے ر وا ئیتی صنفی کر دا ر وں کے حصا ر سے با ہر نکلنا چا ہیے تا کہ نہ صر ف اپنے خا ندا ن میں بلکہ معا شر ے میں ہر سطح پر تمام کا مو ں اور ذ مہ دا ر یو ں کو مرد اور عو ر تیں مل کر انجا م د ے سکیں تا ر یخ کے حوا لے سے ا ن وا قعا ت کا ذ کر کر یں جن کا تعلق جنو بی ایشیا ء میں عو رتو ں کی بیدا ر ی کی تحر یک اور ان کار ہا ئے نما یا ں سے ہو جو عور تیں سر انجا م دے چکی ہیں اس سے شر کا کو مز ید سمجھنے میں آسا نی ہو گی کہ امو ر زند گی میں صنفی امتیا ز کو ئی قد ر تی بات نہیں ہے ہیں بلکہ ہما را رویہ ہے جس کے ذ مے دا ر ہم خو د ہیں۔
اس کا تعلق عو ر تو ں کے حقو ق ،ان کی حیثیت عز ت اور و قا ر سے ہے ۔صنف کے تصور کامقصد ہی یہی ہے کہ اس با ت کا جا ئز ہ لیا جا ئے کہ صنفی بنیا د و ں پر تفر یق کیسے اور کیو نکر پیدا ہو گئی ہے۔اس کے کیا نتا ئج ہیں اور اس کو کیسے بد لا جا سکتا ہے۔ عو ر تیں کسی طر ح بھی مر دو ں سے کم کا م نہیں کر تیں بلکہ زیا د ہ کا م کر تیں ہیں لیکن ان کے کا م کی شنا خت اور قدر نہیں ہو پا تی کیو نکہ ان کے کا م کی شنا خت اور قد ر نہیں ہو تی ان کے کام زیا د ہ تر گھر وں تک محدو د ہو تے ہیں۔اس صورتحال میں خواتین کو یہ حقوق دلانے کے لیے ایک منظم کوشش کی ضرورت ہے ضروری امر یہ ہے کہ صرف یہ دن نہ منایا جائے بلکہ خواتین کو ترقی کے عمل کا بھی حصہ بنایا جائے انہیںفیصلہ سازی میں شامل کرنے کے عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ خواتین کی حالت میں بہتری لائی جاسکے کیونکہ ہمیں ہمارا مذہب ہمارے ملکی قوانین اس چیز کا پابند کرتے ہیں کہ ہم خواتین کو برابری کے مواقع دیں ۔اس وقت ہمارے ملک کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے لیکن انہیں صحت ، تعلیم ،روزگار، اور آگے بڑھنے کے وہ مواقع نہیں دیے جاتے جو مردوں کو حاصل ہیں اس وقت بھی 70 فیصد بالغ خواتین تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم ہیں جبکہ ہمارے مذہب نے تعلیم حاصل کرنا ہر عورت اور مرد پر فر ض قرار دیا ہے ۔آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارے ملک کی صرف 17 فیصد خواتین پرائمری کے بعد تعلیم جاری رکھ سکتی ہیں ہماری فرسودہ روایات ،ثقافت ،اور تعلیم کے مواقع نہ ہوناانکی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔صحت اس وقت دنیا بھر کی خواتین کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ ہے ۔خصوصاًترقی یافتہ ممالک میں خواتین کی صحت کے مسئلے انتہائی ناگفت بہ ہیں ۔جنوبی ایشیا ء میں زچگی کے دوران مرنے والی خواتین کی سب سے زیادہ تعداد پاکستان میں ہے ۔جس کی بنیادی وجہ ناتجربہ کار دائیوں اور صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی ہے ۔دیہی علاقوں میں خواتین کوکسی قسم کی طبی سہولیات میسر نہیں ہیں ۔خواتین کو صحت کی سہولیات کیلئے شہر تک رسائی نہیں ہے اس طرح آج بھی دیہی علاقوں میں بیٹی اور بیٹے میں مساوی سلوک نہیں کیا جاتا ۔بیٹے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔اس ایک مثال ہمارے سامنے پانچ سال تک مرنے والی بچیوں کی تعداد لڑکوں سے دگنی ہے ۔گائوں دیہاتوں میں آج بھی عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے ۔لیکن اُسے مرد کے برابر سہولیات حاصل نہیں ۔آج کے ترقی یافتہ دور میں ہمارے ملک میں غیرت کے نام پہ قتل ونی کاروکاری جیسی رسومات موجود ہیں ۔جس کے باعث ہر سال سینکٹروں خواتین متاثر ہوتی ہیں ۔اس دن ہمیں عہد کرنا ہے کہ ہم خواتین کے تحفظ کے لئے بنائے گئے قوانین پر عمل درامد کو یقینی بنائین گے۔اپنے گھروں سے صنفی امتیاز کا خاتمہ کریں گے۔ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں گے جہاں تمام انسان اپنے فرائض اور ذمہ داریاں پوری کریں۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ