تمام تر پریشانیوں کے باوجود آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے قوم کو مطمئن رہنے کا پیغام دیا ہے اور کہا کہ ’مایوسی پھیلانے اور ڈیفالٹ کی باتیں کرنے والے لوگ آج کدھر ہیں؟ کیا ان کو جواب دہ نہیں ٹھہرانا چاہیے‘۔ تاہم ملک کے سب سے طاقت ور شخص کی اس یقین دہانی کے باوجود پاکستان کے بارے میں شبہات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔ ملک کا جمہوری نظام غیرمؤثر ہوچکا ہے اور ایک پارٹی مکالمہ کی بجائے اسے بزور تبدیل کرنے کا عہد کررہی ہے۔
گزشتہ چار روز میں آرمی چیف کا تیسرا بیان سامنے آیا ہے جس میں پریشانیوں کا حوالہ ضرور ہے لیکن اس مشکل سے نکلنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا ہے ۔ جمعہ کے روز اسلام آباد میں ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے سوشل میڈیا پر ’ آزادی کے غیر ضروری‘ استعمال کے بارے میں متنبہ کیا تھا ۔گزشتہ روز ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے دوٹوک الفاظ میں بتا دیا تھا کہ ’آئین پاکستان ہم پر اندرونی و بیرونی سکیورٹی کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ جو کوئی بھی پاکستان کی سکیورٹی میں رکاوٹ بنے گا اور ہمیں اپنے کام سے روکے گا، اسے نتائج بھگتنا ہوں گے‘۔ اور آج کراچی میں بزنس کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ’ پاکستان کے روشن اور مستحکم مستقبل پر کامل یقین ہے، ایک سال پہلے چھائے ہوئے مایوسی کے بادل چھٹ چکے ہیں‘۔
آرمی چیف کی یقین دہانی کے باوجود سوال صرف اتنا ہے کہ عام شہریوں کو ان باتوں پر یقین کیوں نہیں آتا۔ کیا وجہ ہے کہ بے چینی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ہر شہری مستقبل کے بارے میں پریشانی و بے یقینی کا شکار ہے۔ اگرچہ ایپکس کمیٹی نے عوام کی تشفی کے لیے بلوچستان میں فوجی ایکشن شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ لیکن اس فیصلے سے اگلے ہی دن آج صبح آئی ایس پی آر نے بتایا کہ بنوں میں ایک چیک پوسٹ پر حملہ میں پاک فوج اور فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کی مشترکہ چیک پوسٹ پر حملہ کرنے کی کوشش میں فوج اور ایف سی کے درجن بھر اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ اگرچہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ حملہ ناکام بنادیا گیا اور 6دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا لیکن بدحواسی میں حملہ آوروں نے بارود سے بھری ہوئی گاڑی چیک پوسٹ کی دیوار سے ٹکرا دی جس کے نتیجے میں 12 فوجی شہید ہوگئے۔ اس سے پہلے وائس آف امریکہ منگل کو خیبر کے علاقے میں ایک فوجی قافلے پر شدت پسندوں کے حملے میں آٹھ فوجیوں کے جاں بحق ہونے کی خبر دے چکا ہے۔ اسی دوران میں بنوں ہی کے ایک تھانے سے انتہاپسندوں کے ایک گروہ نے حملہ کرکے 7 پولیس اہلکاروں کو اغوا کرلیا تھا۔ اگرچہ پولیس کے اعلان کے مطابق مقامی قبائیلی لیڈروں کےتعاون سے چوبیس گھنٹے کے اندر ان لوگوں کو بازیاب کرا لیا گیا تھا۔ تاہم یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے ان واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ حالات پولیس یا فوج کےقابو میں نہیں ہیں۔ کیا ایپکس کمیٹی اب خیبر پختون خوا میں بھی فوجی ایکشن شروع کرنے کا فیصلہ کرے گی؟
آرمی چیف نے ایپکس کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے موجودہ صورت حال کی ذمہ داری خراب گورننس پر ڈالی تھی اور واضح کیاتھا کہ ناقص حکمرانی کی وجہ سے سکیورٹی وفرسز کے اہلکار روزانہ کی بنیاد پر شہید ہورہے ہیں۔ گزشتہ چند روز میں رونما ہونے والے واقعات آرمی چیف کی اس تشویش کی تصدیق بھی کرتے ہیں۔ ایپکس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت وزیر اعظم شہباز شریف کررہے تھے اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی اس اجلاس میں شریک تھے لیکن منتخب ہوکر اقتدار سنبھالنے والے ان پانچوں عہدیداروں نے آرمی چیف کی شکایت کا جواب دینے یا ان سے مزید وضاحت مانگنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ وہ کس خراب گورننس کی بات کررہے ہیں۔ اور اگر وزیر اعظم اور صوبائی وزرائے اعلیٰ جنرل عاصم منیر کی شکایت کو درست سمجھ رہے تھے تو انہوں نے ایپکس کمیٹی کو کیوں نہیں بتایا کہ حکمرانی کے خراب نظام کی اصل وجہ کیا ہے؟
شاید بزعم خویش منتخب ہوکر اقتدار کے مزے لوٹنے والا کوئی لیڈر بھی اس حوالے سے خود کو جوابدہ نہیں سمجھتا۔ جب بھی کسی سطح سے نظام حکمرانی میں نقائص کی نشاندہی کی جاتی ہے تو اسے نظر انداز کرکے نعرے نما دعووؤں کے زور پر آگے بڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جیسا کہ گزشتہ روز ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں وزیر اعظم نے اصل مسئلہ سے درگزر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر ترقی کرنی ہے تو احتجاج اور دھرنوں کو بھول کر مل جل کر قومی ترقی کا کام کیا جائے۔ لیکن یہ بنیادی نکتہ اپنی جگہ پر موجود ہے کہ گورننس کی بہتری کے بغیر اگر سکیورٹی فورسز اپنے فرائض بخوبی انجام دینے میں ناکام ہیں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں نقصان ا ٹھا رہی ہیں تو اس صورت حال میں عام شہری کیسے اطمینان یا خوشی محسوس کرسکتے ہیں کہ وہ احتجاج کے بارے میں سوچنے کی بجائے ملکی ترقی کے مقصد سے ہر اختلافی بات کو نظرانداز کرنے کا قصد کرلیں؟
گورننس کے نقائص کی بات نئی نہیں ہے۔ اس معاملہ پر میڈیا میں مسلسل گفتگو ہوتی رہتی ہے۔سوشل میڈیا پر حکومت مخالف ٹرینڈ چلانے والے خاص طور سے اس پہلو کو اجاگر کرتے ہیں گو کہ اس قسم کی مہم جوئی میں کافی مبالغہ بھی ہوتا ہے لیکن مین اسٹریم میڈیا پر بھی کالموں یاٹاک شوز کے ذریعے خیالات کا اظہار کرنے والے ماہرین ، تجزیہ نگار یا صحافی بھی لوگوں کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ناقص سرکاری انتظامات یا سرکاری اداروں کی نااہلی کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود ملک کی سیاسی قیادت ان شکایات پر توجہ نہیں دیتی بلکہ کسی طرح مشکل سوالوں سے بچ کر کارکردگی کا حوالہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اس حوالے سے دو امور خاص طور سے قابل توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ اب ناقص گورننس کی شکایت کسی شہری، صحافی، اینکر یا تجزیہ نگار نے نہیں کی ۔ اور نہ ہی اسے تحریک انصاف سے متاثر کسی سوشل میڈیا گروپ پر نمایاں کیا گیا ہے۔ بلکہ آرمی چیف نے ملک کے سب سے طاقت ور ادارے میں تقریر کرتے ہوئے اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔ کوئی ذمہ دار حکومت اسے نظرانداز نہیں کرسکتی۔ اس حوالے سے دوسرا نکتہ یہ ہے کہ حکومت اعداد و شمار اور ضروری فیصلوں کے نتیجے میں چاہے جیسی بھی کارکردگی دکھانے کا دعویٰ کرے۔ اگر ملک میں حکمرانی کا نظام ہی نقائص بھرپور ہے تو ان اعداد و شمار کی حیثیت کاغذ پر درج الفاظ و ہندسوں سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ ناقص نظام میں کسی اچھی کارکردگی کے ثمرات عام لوگوں تک نہیں پہنچ سکتے۔
اب یہی دیکھ لیا جائے کہ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ناقص گورننس کی وجہ سے فوجی اور دیگر سکیورٹی فورسز کے اہلکار روزانہ کی بنیاد پر شہید ہوتے ہیں۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ سول حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والے ادارے نااہلی، بدعنوانی اور تساہل کی وجہ سے اپنے فرائض سے عہدہ برآ نہیں ہوتے ۔ اسی لیے دہشت گردوں اور انتہا پسند گروہوں کی منصوبہ بندی یا نقل و حرکت کے بارے میں مناسب معلومات بروقت یا تو رپورٹ نہیں ہوتیں یا انہیں جلد از جلد متعلقہ اتھارٹی تک پہنچانے میں سستی سے کام لیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے تخریبی عناصر کو حملے کرنے اور سکیورٹی اہلکاروں کو نقصان پہنچانے کا موقع مل جاتا ہے۔اس صورت حال کو گزشتہ تین روز میں خیبر پختون خوا میں رونما ہونے والے واقعات کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ بنو ں کے تھانے پر حملہ کرکے 7 اہلکاروں کو اغوا کرلیا گیا۔ پولیس نے قبائیلی لیڈروں سے رابطہ کرکے چوبیس گھنٹے میں انہیں بازیاب کرا لیا۔
اس ’کامیابی‘ کو پولیس کی کارکردگی بناکر پیش کیا جارہا ہے حالانکہ یہ پولیس کی سنگین لاپرواہی و نااہلی کا عملی نمونہ ہے۔ قبائیلی لیڈروں کے جس اثر و رسوخ کو استعمال کرکے بعد از وقت اغواشدہ اہلکاروں کو رہا کرایا گیا، اسے شدت پسندوں کی نقل و حرکت اور ارادوں کے بارے میں جاننے اور روک تھام کے لیے قبل از وقت کیوں استعمال نہیں کیا جاسکا؟ اسی طرح بنوں میں ہی فوجی چیک پوسٹ پر حملہ میں بارود سے بھری ہوئی گاڑی دیوار سے ٹکرائی گئی جو آئی ایس پی آر کے بقول 12 فوجیوں اور ایف سی اہلکاروں کی موت کا سبب بنی۔ کیا یہ بنیادی سوال نہیں پوچھنا چاہئے کہ منظم نگرانی کا نظام موجود ہونے کے باوجود کیسے بارود سے بھری ہوئی گاڑی کسی روک ٹوک کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتی رہی یا اتنی بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد کیوں کر مختلف ٹھکانوں پر ذخیرہ کیا گیا؟ یہ واقعہ بھی درحقیقت آرمی چیف کی اس شکایت کی تائد کرتا ہے کہ ناقص گورننس کی وجہ سے فوجی و سکیورٹی اہلکار بے موت مارے جارہے ہیں۔
گورننس کا تعلق سرکاری اداروں کی کارکردگی سے ہوتا ہے۔ جو حکومت ان اداروں کو مستعد اور کارآمد نہ بنا سکے ، اسے ناکام حکومت سمجھا اور کہا جائے گا۔ کارکردگی کے نام پر داد و تحسین کی توقع کرنے والے لیڈروں کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ ان کی ناکامیوں کا جواب کس سے طلب کیا جائے اور اس پر کس کو کیا سزا دی جائے؟ ناقص حکمرانی ایک ایسی صورت ھال کو کہا جاتا ہے جہاں سرکاری اداروں میں بدعنوانی عام ہو اور اس کی روک تھام کا ہر طریقہ ناکام ہورہا ہو۔ اسی طرح اس معاملہ کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ حکومتی فیصلوں پر مکمل اور تیزی سے عمل درآمد نہیں ہوتا۔ دفاتر میں بیٹھے وزیر و مشیر اپنے تئیں شاندار کارکردگی دکھا رہے ہوتے ہیں لیکن عمل درآمد کا نظام فیصلوں کو نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ جیسے وزیر خزانہ تسلسل سے افراط زر کی شرح کو سنگل ڈیجٹ میں لانے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عام صارف قیمتوں میں اس ڈرامائی کمی کو خریداری کے دوران کیوں محسوس نہیں کرتا؟ اس کی ایک بڑی وجہ ناقص نظام حکومت ہے۔
ملک کے بظاہر سب سے طاقت ور شخص نے اس کمزوری کا اعلان فیصلہ سازی کے سب سے بڑے پلیٹ فارم پر کیا ہے لیکن اگر اس کے بعد بھی بدعنوانی اور سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی پر توجہ مبذول نہیں ہوتی تو پھر کیسے بہتری کی توقع کی جائے۔ آرمی چیف کو اوور سیز پاکستانیوں سے پاکستان میں سرمایہ لگانے کی اپیل کرنے سے پہلے حکومت سے اپنی شکایت کا جواب مانگنا چاہئے۔ تاکہ سکیورٹی فورسز بھی مؤثر طریقے سے اپنی ذمہ داری پوری کرسکیں اور ملک میں سرمایہ کاری کرنے والے بھی مایوس ہوکر یہاں سے راہ فرار اختیار نہ کریں۔
( بشکریہ : کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ