پاکستان ابھی کورونا کی وباء کے پھیلاؤ کے پہلے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ابھی بھی ہم اس وباء کو پھیلنے سے روک سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر حکومت کے سامنے تین بڑے سوالات ہیں؛ مریضوں کی تشخیص کیسے کی جاۓ؟ مریضوں کا علاج کیسے کیا جاۓ؟ اور عوام کو اس وباء سے کیسے بچایا جاۓ؟
ہم اس وقت جس مرحلے سے گزر رہے ہیں، وہ صاف دکھا رہا ہے کہ ہمارے پاس وقت کم ہے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم کورونا کی تشخیص کےلیے لیبارٹری ٹیسٹ کے آپشن کی طرف نہیں جا سکتے کیونکہ اس سے تشخیص میں بہت وقت لگتا ہے۔ چین کے محکمہ صحت نے کرونا کی تشخیص کےلیے ‘سپیشل ڈیجیٹل کِٹ’ 13 جنوری کو متعارف کروا دی تھی۔ ہمارا محکمہ صحت ابھی بھی لیبارٹری ٹیسٹ پر زور دے رہا ہے۔ خیال یہ ہے کہ پاکستان کو نہ صرف وہ سپیشل ڈیجیٹل کٹ زیادہ تعداد میں چین سے منگوا کر ہر شہر میں کورونا کے مخصوص مراکز میں مہیا کرنا چاہیئں تاکہ داخلی دفتر پر ہر مریض کا ٹیسٹ ہو سکے اور مرض ثابت ہونے کی صورت میں اسے قرنطینہ میں منتقل کر دیا جاۓ۔ ہو سکے تو اس ڈیجیٹل کٹ کی ٹیکنالوجی چین سے حاصل کرکے اس کو ملک میں بھی بنایا جا سکتا ہے۔ یاد رکھیں کہ صرف ٹمپریچر چیک کرنا سکریننگ نہیں ہے۔ اس وقت مسئلہ ان تشخیصی آلات کے ہر جگہ اور مناسب تعداد میں نہ ہونے کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے ڈاکٹر اور رضاکار اس کام میں کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اگر ان کی حفاظت کےلیے درکار ‘لباس اور گئیر’ موجود ہونگے۔ بجاۓ اس کے کہ ہم بیرونی ممالک سے یہ کپڑے اور چیزیں مانگیں، حکومت کی نگرانی میں ماسک، سینیٹائزر اور حفاظتی لباس کی تیاری کےلیے پرائیویٹ سکیٹر کو آگے آنا ہو گا۔ پاکستان میں عوام کو بروقت احساس ہو چکا ہے کہ ایک وباء سے بچنا ہے اور اگر ہم کوشش کریں تو وباء کو اسی مرحلے میں شکست دے سکتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ مریضوں کی صحیح تعداد کا معلوم کرنا تشخیص کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اگر مریضوں کی صحیح تعداد کا پتہ ہو گا تو حکومت اس ضرورت کے مطابق انتظامات کے قابل ہو گی۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اعداد و شمار اور ڈیٹا کے تجزیہ کےلیے ایک سنٹر وفاق کی سطح پر قائم ہو۔ میرے خیال میں یہ کام این ڈی ایم اے کو کرنا چاہیۓ۔ کورونا کا مسئلہ قومی سلامتی کا ہے اور اس کو صرف صوبائی حکومتوں کے حوالے کر کے ان کی انفرادی کارکردگی کا موازانہ نقصان دہ ہو گا۔ ضلع کی سطح پر رسک مینیجمنٹ سنٹر کو فوری متعارف کروایا جاۓ جو ڈویژنل کمشنر کی نگرانی میں ڈیٹا کی بنیاد پہ حالات اور معاملات کی پیش بینی کر سکیں اور بھگڈر کے ماحول کی بجاۓ سوچے سمجھے طریقوں پر مریضوں کو سنبھال سکیں۔ بروقت اقدامات اور ڈیٹا کا استعمال ہمیں اس جنگ میں کامیاب کر سکتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانا اس لیے ضروری ہے کیونکہ ہر شہر میں لاک ڈاؤن کرنا ضروری نہیں ہے اور نہ ہو گا۔ جہاں ایسا کرنا ضروری ہو گا، وہاں گلی محلوں میں لوگوں تک خوراک اور اشیاۓ خورد و نوش کو پہنچانے کےلیۓ رضاکاروں کی رجسٹریشن کے عمل کا آغاز ہو جانا چاہیے۔ آپ دیکھیں گے کہ لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔ لیکن ضلعوں میں موجود سسٹم کو ان سے کام لینے کےلیۓ تیار ہونا چاہیۓ۔ ضلعی حکومتوں کو چاہیۓ کہ اس بات کا تعین کر لیں کہ لاک ڈاؤن کی صورت میں رضاکاروں کی ‘لوکل ریسپانس ٹیم’ سے کیا کام لینا ہےاور متوقع مریضوں کو کہاں رکھنا ہے۔ بنیادی طور پر اس تنظیم کا خاکہ ہر ضلع میں رائج کر دیا جاۓ تو بہتر ہو گا۔ وفاق میں این ڈی ایم اے کے ڈیش بورڈ پر ہر لوکل ریسپانس ٹیم کا ڈیٹا نظر آنا چاہیۓ۔
ضلعی لوکل ریسپانس ٹیم کے ذمہ مندرجہ ذیل تین کام ہونے چاہییں:
1۔ ضلع میں رپورٹ ہونے والے کرونا کے کیسز کے حوالے سے معلومات کا اکٹھا کرنا اور ان کو وفاقی ڈیش بورڈ کےلیۓ فیڈ کرنا
2۔ اشیاۓ خورد و نوش کے ضلع میں موجود سٹاک پر نظر رکھنا اور اقدامات کےلیۓ پیش بینی کرنا
3۔ کرونا کے مریضوں کی خدمت اور بحالی پر مامور ڈاکٹروں اور اہلکاروں کی اور ان کے اہلِخانہ کی ضروریات کا خیال رکھنا
وفاقی حکومت کا کام ہے کہ ان کاموں کو بروقت انجام دینے کےلیۓ وسائل مہیا کرے۔ اگر کہیں کوئی ترقیاتی کام ہو رہے ہیں تو ان وسائل کو کرونا کرائسس کی طرف منتقل کرنے میں دیر نہیں لگانا چاہیۓ اور ایسی سیونگز کو ضلعی حکومتوں کے حوالے کرنے کا وقت اب ہے۔ اس وقت لوگوں کی صحت کا معاملہ ترقیاتی کاموں سے زیادہ ضروری ہے اور اس فیصلے میں کوئی سرخ فیتے کی رکاوٹ مجرمانہ تصور ہو گی۔
وفاقی حکومت کو اچھی سہولیات کے ساتھ ایک ایک ہزار بستر کے قرنطینہ کا فوری طور پر تفتان اور گلگت میں انتظام کرنا چاہیۓ۔ انہی جگہوں پر فوری امداد اور مناسب انتظام لوگوں کی زندگیاں بچا سکے گا۔ انہیں کسی دوسرے شہر منتقل کرنے کی حکمتِ عملی نہ صرف پرخطر ہے بلکہ نامناسب ہے۔ سارے وسائل کا منہ موڑ کر یہ کام اور انتظام فرض ہے۔ کرونا کے خلاف جنگ ‘ریلے ریس’ کی طرح ہے؛ کیا حکومت اس ریس میں اس ‘ بیٹن’ کو تھام کر بھاگنے کےلیۓ تیار ہیں؟
یاد رہے کہ مندرجہ بالا اقدامات وباء کو پہلے مرحلے میں روکنے سے متعلق ہیں۔ اگر کسی شہر میں خدانخواستہ براہِ راست لوگ وباء کی زد میں آ گۓ یعنی وباء دوسرے یا تیسرے مرحلے میں داخل ہو گئی تو ایک شہر کےلیۓ کم از کم دس ہزار ڈاکٹروں کی ضرورت ہو گی۔ اس سے پہلے کہ وہ نوبت آۓ، وباء کو اس کے اعداد و شمار اور طریقہء واردات کو سمجھ کر مناسب انتظامات کے ذریعے اسے پہلے مرحلے میں کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم قدم تعلیمی اداروں اور عوامی اجتماعات پر پابندی کی صورت میں لیا جا چکا ہے۔ اب حکومت کو سرکاری دفاتر میں صرف ضروری سٹاف کے ساتھ کام کرنے کے احکامات جاری کرنا چاہییں۔ سرکاری وزارتوں، محکموں اور دفاتر میں صرف اس ادارے کا سربراہ اپنے چند اہلکاروں کے ساتھ اپنے اپنے دفتروں میں موجود رہیں تو کام چلتا رہے گا۔ باقی سب ملازمین خصوصا” خواتین اور عمررسیدہ افراد کو گھر سے کام کرنے کا حکم فوری جاری کرنا چاہیے۔ یہی حکم نجی شعبے میں فی الفور لاگو ہونا چاہیے جو اپنے ملازمین کا خون چوس بھی رہا ہے اور خطرے کی اس گھڑی میں معاملات کو سمجھ نہیں رہا۔
وفاقی حکومت کو چاہیۓ کہ بیت المال، احساس پروگرام اور ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ آرگنائزیشن کو ایسے مزدور اور دیہاڑی داروں کو فوری رجسٹریشن کرنے کے احکامات جاری کرے تاکہ ان کی مالی مدد کا بندوبست ہو سکے جن کا روزگار اس صورتحال میں بند ہوا ہے۔ اس بات کا یقینی بنانا بہت ضروری ہے کہ یہ انتظامات اور علاج اسلامی جمہوریہء پاکستان میں بغیر کسی رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق کے سب کو میسر ہو۔ اس سے بہت سی جانیں بچانے میں مدد مل سکے گی۔ غیر یقینی صورتحال کے خاتمے کےلیۓ بہت ضروری ہے کہ وفاقی حکومت یا این ڈی ایم اے کا ترجمان ہر دو گھنٹے بعد کی صورتحال کو میڈیا کے سامنے رکھے تاکہ عوام حالات سے غافل نہ رہیں۔
ملک اور لوگوں کی خیر ہو؛ معیشت کا کوئی مسئلہ نہیں۔ معیشت دوبارہ کھڑی ہو جائیگی اگر لوگ زندہ رہیں گے۔ یہ انہی لوگوں کا ملک ہے جنہوں نے ہر آفت میں انسانی ہمدردی کی اعلیٰ مثالیں رقم کی ہیں۔ یہ مقابلہ کرنے کےلیۓ پیٹھ نہیں دکھائیں گے۔ لیکن اس وقت وہ کھڑے ہوں تو کہاں؟ کریں تو کیا کریں؟ یہ بتانا حکومت کا کام ہے ! آپ صنعتکاروں کو ماسک، سینیٹائزر، حفاظتی لباس اور ڈیجیٹل کِٹ بنانے کا کام سونپ کر دیکھیں۔ وہ آپ کو نہ صرف اپنی ضرورت کو پورا کر کے دکھائیں گے بلکہ ہو سکتا ہے دنیا کی مارکیٹ کی کمی کو بھی پورا کرکے زرِمبادلہ بھی کما کر دے سکیں ۔ اس عالمی وباء میں پاکستان کےلۓ دنیا بھر میں مثال بننے اور رہنما ملک بننے کا موقع ہے۔ یہ وباء ہمیں احتیاط کرنے کو کہہ رہی ہے، ہمیں کام کرنے سے نہیں روک رہی۔ چین والوں نے یہ کام بغیر خدا کے کر لیا ہے تو یار ہم تو خدا والے ہیں؛ ہم کس انتظار میں بیٹھے ہیں۔ اٹھو کہ ملک اور عوام کی خدمت کا وقت آ گیا ہے۔
فیس بک کمینٹ