بہت تضاد ہے اس معاشرے میں اور ہمارے روئیے میں بھی۔ جو مرد کہتا ہے کہ سلام کا جواب دینا سنت ہے، وہی مرد سلام کے جواب کے بعد سنت کو بھول جانے کی تلقین کیوں کرتا ہے۔ سلام کا جواب ملتے ہی مرد کو عورت پر پیار کیوں آنے لگتا ہے خواہ وہ چار بچوں کی ماں ہی کیوں نہ ہو۔ پھر اسے اس عورت سے محبت، پیار، اور وفا بھی درکار ہوتی ہے جسے وہ جانتا تک نہیں۔ وہی مرد جو بات بات پر اسلام کے حوالے دیتا ہے اور اسلام کے نفاذ کی باتیں کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جو عورت کی بے حیائی اور بے پردگی پر تبصرے کرتا نہیں تھکتا اور جس کو یقین ہوتا ہے کہ مرد کو اگر عورت نہ ورغلاتی تو وہ آج بھی جنت میںہوتا۔ ذرا سا موقع ملنے کی دیر ہے اسی مرد کو پھر کچھ بھی تو یاد نہیں رہتا۔ ماں، بہن اور بیٹی اس کے نزدیک ان لفظوں یا رشتوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں کہ اس کے نزدیک عورت تو بس عورت ہوتی ہے اور صرف اس لئے ہوتی ہے کہ اس تک رسائی حاصل کی جا سکے۔ عورت چاہے تو خود اپنی عزت کروا سکتی ہے۔ ایسے دعوے کرنے والا مرد تو موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ کب اور کیسے وہ اپنے ہی قول کی دھجیاں بکھیر دے۔ ایک زمانہ تھا کہ بازاروں میں دکاندار بہن، بیٹی اور ماں جی جیسے الفاظ استعمال کیا کرتے تھے۔ آج ہم نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ گڑیا، چھوٹی آنٹی، بڑی آنٹی، پیاری گڑیا جیسی آوازوں نے بازاروں کو عجب تماشہ گاہ بنا دیا ہے۔آج ہر مرد کہتا ہے وفا نہیں۔ وفا کہاں سے ملے جب مرد مردوں کی نسبت عورتوں کو بیسٹ فرینڈ بنانا چاہتے ہیں اور اپنی بیوی کی بجائے دوسرے کی بیوی سے وفا چاہتے ہیں۔ پہلے ہر لڑکی کے ویر ہوا کرتے تھے۔ محلے کی لڑکی سب کی بہن، بیٹی ہوتی تھی۔ دروازوں کی جگہ صرف کپڑے کا پردہ ہی حفاظت کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ آج ہر مرد چاہتا ہے، بہن، بیٹی ہو نہ ہو گرل فرینڈ ضرور ہونی چاہیئے۔ ہم داڑھی اور حجاب میں بھی اسلام کی دھجیاں اُڑانے کو تیار رہتے ہیں۔ جو مرد حجاب کی تلقین کرتے ہیں وہ حجاب سے جھانکتی آنکھوں کو دیکھ کر سبحان اللہ کہنے سے بھی نہیں چوُکتے۔ ساتھ ہی سر پر دوپٹہ نہ اوڑھنے والی لڑکی اور بغیر داڑھی والے مرد کو بے دین اور معاشرے کا ناسور ثابت کرنے کی کوشش میں بھی لگے رہتے ہیں۔ اصل تضاد تو ہمارے اندر ہے۔ ہم نماز کی تلقین کرتے ہیں مگر خود نماز ادا نہیں کرتے۔ ہم پردے کی تلقین تو کرتے ہیں مگر دوسروں کو بے نقاب کرنے اور بس ایک جھلک دیکھنے کی کوشش میں اپنی ساری قوت صرف کر دیتے ہیں۔ ہر باپ چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی معاشرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے چلنے کے قابل ہو۔ مشکل گھڑی میں اپنا سہارا بن سکے وہ اچھے ادارے میں پڑھے مردوں کے آفس میں کام کرے۔ مگر وہی باپ جب مرد بن کے باہر نکلتا ہے تو دوسروں کی بیٹیاں اس کے لئے بس دوسروں کی بیٹیاں ہی بن جاتی ہیں۔ درحقیقت ہمیں سب کوخود کو ڈھانپنے کی ضرورت ہے۔اپنے ذہن ودل اور نفس کو کنٹرول کرنے کی، اپنی حد میں رہنے کی، ذہنی آلودگی کو صاف کرنے کی۔ اور اس بات کا ادراک کرنے کی کہ ہر لڑکی یا عورت سے پیار نہیں ہو سکتا اور نہ ہرعورت آپ کی وفا کے لیے بنی ہے ۔یاد رکھیں جو برائی آپ کریں گے اس کی سزا آپ نے ہی سہنی ہے کہ دھوکے کی طرح برائی کے بھی پاؤں ہوتے ہیں اور یہ ایک نہ ایک دن آپ تک پہنچ کر آپ کو اپنی لپیٹ میں ضرور لیتی ہے۔
فیس بک کمینٹ