نظم : شہدائے پشاور کے نام ۔۔ منزہ اعجاز
تجھے کہوں کیا میں
اے دسمبر
جدائیوں کا سفیر ہے تُو
وہ سارے لمحے جو تیرے پہلو میں آکے سمٹے
نجانے کس کی نظرلگی ہے
ہرایک لمحہ بکھر گیا ہے
وجودچھلنی ہے
دل بھی چھلنی
ہے ذہن خالی
زباں پہ پہرہ
ہرآنکھ نم ہے
دلوں کی چیخیں
سماعتوں کو
یوں زہرآلود کررہی ہیں
وہ ان گنت
سب فراق لمحے
جنہوں نے ماﺅں کے
شیر چھینے
وہ جوکہ بہنوں کا آسراتھے
وہ باپ کامان
بھائیوں کاغرور تھے جو
وہ تیرے دامن میں آ گرے تھے
شہید تھےوہ
جو سرخ روہوگئے تھے
جو گلاب تھے سب
بہاررُت کی نویدتھے وہ
شفق کی لالی سے سرخ ہوتی
وطن کی آزاد
جلوتوں کے امین تھے وہ
وہ امن کے راہی۔جراتوں کے
سفیر تھے وہ
شہید تھے وہ
نہ رو ، نہ رو ماں کہ تیرا بیٹا
شہید بیٹا
یہیں کہیں ہے
تر ے وطن کی فضامیں اس کے
لہو کی خوشبو رچی ہوئی ہے
وطن کی مٹی میں پلنے والی
ہراک کلی کووہ اپنے خوں سے
بہارآہنگ کرگیا ہے
جوتجھ پر عائد وطن کے حق تھے
وہ اپنے خوں سے چکا گیا ہے
وہ سارے رشتے نبھا گیا ہے