ملتان میں دس سال کے بعد گیا تھا ۔ اِن دس سالوں میں ملتان نے خاصی ترقی کی ہے۔ خاص طور پر ملتان صدر اور چھاﺅنی نے خاصی وسعت پائی ہے ، بہت سی نئی عمارتیں ، نئی مارکیٹیں اور نئے ہوٹل بن گئے ہیں اور ملتان میں بڑے شہروں کا سادم خم آ گیا ہے۔ سب سے نمایاں ترقی، مثبت ترقی بہاﺅالدین زکریا یونیورسٹی کے قیام کی صورت میں ہے ، کچھ نئی رہائشی کالونیاں بھی بن گئی ہیں اور ملتان کے اہل قلم حضرات نے اپنا آپ منوانے کےلئے اِدھر اُدھر ہاتھ پاﺅں بھی مارنے شروع کر دیئے ہیں کہ کوئی ادیب محض اخبارات کے ادبی ایڈیشنوں اور کالموں کے سہارے زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا ۔ ویسے بھی مسعود اشعر ،اے بی اشرف ، اصغر ندیم سیّد، ارشد ملتانی، فرخ دُرانی، صلاح الدین حیدر ، شمیم ترمذی اور انوار احمد جیسے لوگ اخباری ایڈیشنوں اور کالموں کی پیداوار نہیں ہیں۔ ٹھوس ادبی خدمات اور کارناموں اور کار گذاریوں کی وجہ سے ملتان کی گرد میں زیادہ دیر تک چھپے نہیں رہ سکتے تھے۔ یونیورسٹی کے قیام کے ساتھ اہل علم حضرات کی ایک خاصی بڑی کھیپ ملتان پہنچ چکی ہے جس کا یقینی طور پر ادب و فن پر بہتر اور گہرا اثر پڑے گا اور پڑ رہا ہے اور راولپنڈی کی طرح اس شہر کا ادبی موسم بھی تبدیل ہو رہا ہے۔
ملتان میں تقریب اصغر ندیم سید کی کتاب ”زمین زاد کا افق “ کی رونمائی کی تھی۔ اصغر ندیم چونکہ ملتان کی اولاد ہیں چنانچہ اس کی پہلی کتاب کا عقیقہ اپنے آنگن میں ہی ہونا چاہئے تھا۔ اس تقریب میں کشور ناہیداور میری حیثیت مہمانوں کی تھی یا چشم دید گواہوں کی کہ ہم واپس آ کر اہل لاہور کو بتا سکیں کہ اصغر ندیم سید اپنے قبیلے کی آنکھ کا تارا ہیں۔ کتاب دنیا بھر کے حریت پسند شاعروں کی نظموں کے ترجموں پر مشتمل ہے اور اِسی کی رونمائی کی تقریب کی صدارت فرخ درانی نے کی اور کتاب اور اہل کتاب پر مضامین پڑھنے والوں میں ملتان یونیورسٹی یونین کے صدرسلیم حیدر درانی ، مشتاق شیدا، صلاح الدین حیدر، انوار احمد ، شمیم ترمذی ، اے بی اشرف، ارشد ملتانی اور کشور ناہید شامل تھے اور سننے والوں کی تعدد ساڑھے تین سو سے زیادہ تھی۔
مشتاق شیدا حسب معمول بن بلائے مضمون نگار تھے اور مضمون نگار بھی ایسے جنہوں نے کتاب بھی نہیں پڑھی تھی اور جو اہل کتاب کے بارے میں کوئی بات کرنے کی بجائے دوسروں کے بارے میں باتیں کر رہے تھے چنانچہ حاضرین جلسہ نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو کہ ایسے حالات میں کیا جاتا ہے ۔ مشتاق شیدا کی ہمت کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے مسلسل تالیوں کے باوجود اپنا مضمون مکمل طور پر پڑھ کر سنایا۔ کیا سنایا؟ یہ وہی بتا سکتا ہے جس نے کہ یہ مضمون سُنا ہو۔ بس اتنا سنائی دیا کہ ہر منٹ میں انہوں نے صلاح الدین حیدر کا نام دو مرتبہ لیا اور بار بار ” ہمارا رہبر، صلاح الدین حیدر “ کا نعرہ لگاتے رہے۔
صلاح الدین حیدر کا مضمون خاصا فکر انگیز تھا ، انوار احمد کے شگفتہ مضمون میں بھی فکر کے بے شمار مقامات تھے ، شمیم ترمذی کا تین صفحات پر جوش پر لکھا ہوا مضمون خاصا دلچسپ تھا مگر جس فقرے پر کار کا ہارن سنائی دیتا یا کسی کی کھانسی نکل جاتی وہ دوبارہ سُناتے اور یوں اِن تین صفحوں کے لوگوں نے چھ صفحے سُنے اے بی اشرف اور ارشد ملتانی کے مضامین توجہ اور احترام کے ملے جُلے جذبات سے سُنے گئے اور مہمانوں کا تو ویسے بھی زیادہ خیال رکھا جاتا ہے کہ ملتان بہت ہی مہمان نواز شہر ہے اور مہمان نوازی کا یہ حق ہمارے میزبان مہدی نے بھی خوب ادا کیا۔
دوسرے روز صبح واپس آنا تھا مگر یونویرسٹی کے طلباءنے دوپہر تک روک دیا کہ یونیورسٹی ضرور دیکھیں چنانچہ دوسرے دن صبح 1 بجے سے 12 بجے تک بہاﺅ الدین زکریا یونیورسٹی کے طلباءاور طالبات کے ساتھ ایک محفل برپا رہی کشور ناہید نے اپنی نظموں کے علاوہ طلباءاور طالبات کو علم اور عمل کے موضوع پر ایک اچھا خاصا جاندار اور فی البدیہہ لیکچر بھی پلا دیا اور محفل میں موجود شاعروں نے اپنا کلام سنایا اور داد سمیٹی اور پھر واپس لاہور روانہ ہونے سے پہلے پروفیسر اے بی اشرف کے کمرے میں لطائف کا ایک دور بھی چلا۔
روزنامہ امروز۔ ملتان
دس فروری 1981 ء
فیس بک کمینٹ