بھٹو صاحب نے خورشید حسن میر کی معرفت مجھ سے ڈرامہ لکھنے کی فرمائش کی تھی۔ میں نے یہ سٹیج ڈرامہ لکھا اور اس کی ایک کاپی حنیف رامے صاحب کو دی جو اس وقت پنجاب کے چیف منسٹر تھے۔ حنیف رامے صاحب نے ایک بہت ہی خوبصورت اور فکر افروز تبصرہ لکھا جو میں نے ڈرامے کے بروشر کے طور پر امروز پریس سے چھپوایا۔ حنیف رامے نے اس کھیل کا تعارف ان الفاظ سے شروع کیا تھا ’’منو بھائی اپنے قاری پر بالکل اس انداز میں حملہ آور ہوتا ہے جیسے کوئی انقلابی گوریلا دشمن پر شب خون مارتا ہے۔ چپکے سے کسی ناگہانی بلا کی طرح وہ جھپٹتا ہے اور سیدھا دل پر پنجہ گاڑ دیتا ہے۔ ایک عرصے سے میری یہ حالت ہے کہ میں اس کی تحریر میں جھانکنے سے پہلے اسی طرح لرز اٹھتا ہوں جیسے مجھے اپنے ضمیر میں اترنے کے لئے کہہ دیا جائے، جہاں قدم قدم پر پھانسیاں گڑی ہوں اور ہر پھانسی پر میری لاش لٹکی ہوئی ہو۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ منو بھائی کی ادبی کاوش کا سامنا کرنا پڑا ہو اور میں لہولہان نہ ہوا ہوں، لیکن’’جلوس‘‘ نے تو مجھے ہی نہیں میرے سارے بھائی بندوں کو لپیٹ میں لے لیا ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ساری پیپلز پارٹی کی نبض پر کسی سفاک ستارہ شناس نے ہاتھ رکھ دیا ہے اور مستقبل کی آنکھوں میں جھانک کر وہ ہماری تقدیر کو ہانک رہا ہے۔ منو بھائی کا کھیل’’جلوس‘‘ کیا ہے ہماری جدوجہد کی ایک درد انگیز جھلک ہے، اس جھلک کا تعلق بظاہر ماضی سے ہے لیکن یہ آنے والے وقت کے دھندلکوں کو چیر کرغیب کی خبر لانے کی ایک جسارت ہے اور غیب وہ حقیقت ہے جس سے ا نسان ہمیشہ ڈرتا چلا آیا ہے‘‘۔ محمد حنیف رامے صاحب کا تعارف ان الفاظ پر ختم ہوتا ہے کہ ’’درد تو بہت ہوگا لیکن دل سے یہ دعا نکلی ہی چلی جاتی ہے کہ منو بھائی بار بار تقدیر کا تازیانہ اٹھائے اور اتنا پیٹے اتنا پیٹے کہ خون کا دریا پھوٹ نکلے، جو میری اور میرے بھائی بندوں کی ساری خواہشوں، سارے مفادات کو خس و خاشاک کی طرح بہالے جائے‘‘۔
جب ڈرامے کو اسٹیج کرنے کا مرحلہ آیا تو خورشید حسن میر صاحب نے پوچھا کہ یہ ڈرامہ ا سٹیج کون کر سکے گا۔ میں نے یاور حیات کا نام لیا اور کہا کہ وہ اس سلسلے میں اسلم اظہر منیجنگ ڈائریکٹر پی ٹی وی سے بات کرلیں گے۔ خورشید حسن میر نے ٹیلی فون پر بھٹو صاحب کو بتایا کہ منو بھائی نے ڈرامہ لکھ دیا ہے۔ بھٹو صاحب نے کہا انہیں اپنے ساتھ لے کر آ جاؤ ۔ (Bring him along) ہم دونوں بذریعہ پی آئی اے راولپنڈی اور ذوالفقار علی بھٹو کے دفتر میں پہنچے۔ بھٹو صاحب نے مجھ سے پوچھا’’ڈرامہ ہو گیا‘‘۔ میں نے کہا’’نہیں سر! ابھی ہوا نہیں، لکھا گیا ہے‘‘ بھٹو صاحب نے فرمایا’’پڑھ کے سناؤ ‘‘۔Read out to me میں نے نہایت ادب سے پڑھنا شروع کیا اور بھٹو صاحب کو بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا جلوس ہے، چوتھے سین پر پہنچا تو اس میں پیپلز پارٹی کے بارے میں کچھ ایسی باتیں بھی تھیں جن کو سن کر خورشید حسن میر کے ماتھے اور گردن پر پسینہ آگیا، مگر بھٹو صاحب نے کہا کہ’’یہ جلوس ختم کیسے ہوتا ہے؟‘‘ عرض کیا’’جلوس انتشار اور بے چارگی میں ختم ہوتا ہے‘‘۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ’’اگر یہ پیپلز پارٹی کا جلوس ہے تو انتشار میں کیسے ختم ہوسکتا ہے؟‘‘ عرض کیا ’’میرے ڈرامے میں ایسے ہی ختم ہوتا ہے، جہاں پیپلز پارٹی اپنے انتخابی منشور اور لوگوں کی توقعات کے خلاف عمل کرتی ہے‘‘۔ اس کھیل میں ایک ایسا جلوس دکھایا گیا تھا جو جبر و استحصال کی چھاؤ نی فتح کرنے کے لئے نکلتا ہے۔ انتظامیہ کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس جلوس کو طاقت کے استعمال کے بغیر منتشر کیا جائے اور کسی صورت چھاؤ نی کی حدود میں داخل ہونے نہ دیا جائے۔ انتظامیہ بہت سے حربے آزماتی ہے مگر جلوس منتشر نہیں ہوتا۔ آخری حربہ یہ لگایا جاتا ہے کہ اس جلوس کا ’’سمتوں کا شعور‘‘(Sense of Direction ) خراب کردیا جائے۔ یہ حربہ کامیاب رہتا ہے اور جلوس طاقت کے استعمال کے بغیر ہی منتشر ہوجاتا ہے۔
آخری سین میں جب جلوس اپنی منزل کو بھول جاتا ہے تو ڈرامے کے تماشائیوں کی نشستوں سے ایک فوٹو گرافرا سٹیج پر آ جاتا ہے اور کہتا ہے ’’میں نے بڑے بڑے جلوس دیکھے ہیں ،مگر انتشار کا یہ لمحہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا‘‘ وہ کہتا ہے کہ ’’اتنا بڑا جلوس دوبارہ اکٹھا نہیں ہو سکتا اور اگر یہ جلوس منزل پر پہنچنے میں ناکام رہتا ہے تو پھر …‘‘وہ اپنا کیمرہ اسٹیج پر پھینکتا ہے اور رونے لگتا ہے اور رندھی ہوئی آواز میں کہتا ہے کہ ’’منزل مقصود کو بھول کر آپ سب لوگ جلوس کو تباہ کر دیں گے اور شاہراہوں میں کھمبوں کے ساتھ تمہاری لاشیں لٹکی ہوئی ہوں گی ‘‘ایک کمسن بچی اسٹیج پر آتی ہے اورفوٹو گرافر کے آنسو پونچھتی ہے۔یہ ڈرامہ ایک دن سرکاری ملازمین اور افسروں کو دکھایا گیا جن میں کابینہ کے ارکان بھی شامل تھے۔ دوسرے دن پاکستان پیپلز پارٹی کے عہدیداروں کو دکھایا گیا۔ ڈرامہ کا آخری سین چل رہا تھا کہ میں نے بھٹو صاحب کو اسٹیج پر آتے دیکھا تو اداکاروں اور اداکاراؤ ں کو منجمد ہو جانے کا اشارہ کیا۔بھٹو صاحب نے اسٹیج پر پہنچ کر کہا منوبھائی کہتا ہے کہ یہ جلوس آگے نہیں جائے گا مگر میں کہتا ہوں کہ ہم دائیں راستے سے یا بائیں راستے سے منزل تک پہنچیں گے ’’پھر مجھ سے کہا ’’ڈرامہ بہت اچھا ہے (دی پلے از گڈ)‘‘ میں نے کہا ’’پرائم منسٹر بلکہ مور دین اے پرائم منسٹر! یور پرفارمنس از ایون بیٹر ‘‘
اس وقت تک محترمہ نصرت بھٹو صاحبہ اسٹیج پر آ چکی تھیں اور وہ مجھ سے ایک ماں کی طرح بغل گیر ہو گئیں۔اس کھیل میں ثروت عتیق ،سلیم ناصر، بدیع الزماں مرکزی کردار ادا کر رہے تھے جبکہ افضال احمد نے وہیل چیئر کے ذریعے انقلاب برپا کرنے والا کردار ادا کیا۔بدیع الزماں ایک ایسے مذہبی رہنما کا کردار اد اکر رہے تھے جو جلوس کی منزل کو گمراہ کر دیتا ہے ۔ ثروت عتیق نے ایک طوائف کا کردار ادا کیا۔ ایک موقع پر پولیس آفیسر کہتا ہے کہ آپ دائیں بازو کا رخ اختیار کرکے جبر کی چھاؤ نی تک پہنچ سکتے ہیں ۔یاور حیات نے اس کھیل کو پاکستان ٹیلی وژن کے لئے ریکارڈ کیا مگر وزیر اطلاعات و نشریات مولانا کوثر نیازی نے اس ڈرامے کی اوریجنل ریکارڈنگ اسلام آباد طلب کی اور اس کے بعد یہ ڈرامہ معدوم ہو گیا کھیل پر تبصرہ نگاروں نے لکھا کہ فوٹو گرافر کے آنسو پونچھنے والی بچی بے نظیر بھٹو لگتی ہے ۔ایک روز آغا ناصر میرے پاس آئے اور مجھے ہوٹل میں اپنے کمرے میں لے گئے اور کہا کہ بھٹو صاحب نے تم سے نئے آئین پاکستان کے موضوع پر ٹی وی ڈرامہ لکھوانے کا مشورہ دیا ہے جس کی ڈائریکشن اور ریکارڈنگ میں خود کروں گا۔ یہ ڈرامہ جس کی طوالت ایک گھنٹے کی تھی ’’رت بدل جائے گی ‘‘ کے عنوان سے لکھا اور ریکارڈ کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ڈرامہ دیکھا اور آغا ناصر سے پوچھا کہ منوبھائی کو اس کا کیا معاوضہ ملے گا۔ آغا ناصر نے انہیں بتایا کہ 75 روپے فی منٹ ملیں گے جو منوبھائی کا آؤ ٹ اسٹینڈنگ ریٹ ہے۔ بھٹو صاحب نے فرمایا ’’میری طرف سے پچیس ہزار بھی دیئے جائیں‘‘ اور یوں میں زندگی میں پہلی مرتبہ 25 ہزار پتی بن گیا۔
ٌ( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )
فیس بک کمینٹ