مشتاق کھوکھر 11 اگست 1946ء کو ملتان میں پیدا ہوئے انہیں ادبی حلقوں میں مجاہدِ ادب بھی کہا جاتا تھا۔ ان کی مادری زبان ملتانی (سرائیکی) تھی۔ میدان شعروادب میں آپ نے اردو اور سرائیکی زبانوں کو ذریعہ اظہاربنایا اور لگ بھگ تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ آپ فنِ شعر وسخن کے حوالے سے عاصی کرنالی مرحوم کواپنا استاد جانتے تھے۔ مشتاق کھوکھر کی نرینہ اولاد کی تعداد چار تھی جو پیدائشی معذور تھی اور وہ وقفہ وقعہ سے انتقال کر گئے حتیٰ کہ آپ کی اہلیہ مقصودہ بیگم بھی آپ کاساتھ چھوڑ کر دنیائے فانی سے کوچ کرگئیں۔بعدازاں مشتاق کھوکھر نے معاشرے کے معذور بچوں کی دیکھ بھال کیلئے ’’مقصودہ بیگم میموریل‘‘ کے نام سے ایک فلاحی ادارہ قائم کیا۔ اور پھر اسی ادارہ کے زیراہتمام تادم آخر بھرپور ادبی محافل کا انعقاد کرواتے رہے۔ مجاہد ادب مشتاق کھوکھر نے ممتازالعیشی اکیڈمی، سرائیکی مجلس اور مقصودہ بیگم میموریل کے باہم اشتراک سے ان گنت طرحی مشاعروں کا اہتمام کیا۔’’عارف منصور ملتانی‘‘ نے ملتان میں دبستانِ وارثیہ کا سلسلہ متعارف کرایا تو مشتاق کھوکھر نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اور پھرملک بھر میں جہاں کہیں بھی مشاعرہ منعقد ہوتا آپ وہاں معاشی تنگ دستی کے باوجود شرکت کرتے۔ مشاعروں کے اس سلسلہ میں قمروارثی دبستان وارثیہ کراچی سے ہرسال ردیفیہ کلام کاانتخاب شائع کرتے ہیں جس میں مشتاق کھوکھر کا بہت سا نعتیہ ادبی سرمایہ محفوظ ہے۔ چند سال ’’منظر‘‘ رسالہ کی سیریز شائع کیں جس میں ملتان کی بے شمار شخصیات کے بارے میں مضامین اور ان کے ادبی شہہ پارے غزلیں، نظمیں، مضامین، افسانے شائع کیے۔ ملتان کے گردونواح کے شعراء اور ادبی شخصیات بارے لگ بھگ 250 منظوم نظمیں لکھیں اور تقریبات میں پڑھیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ مجاہدِ ادب مشتاق کھوکھر تمام عمرادب سے وابستہ احبات کو اکٹھا کرنے اورجوڑنے کی کوششوں میں مصروف رہے اوراسی کام میں زندگی وقف کیے رکھی مگر اپنے تخلیق کردہ ادبی سرمائے کو کتابی شکل نہ دے سکے۔ دنیائے ادب میں جہاں مشتاق کھوکھر کو مجاہد ادب کے نام سے پکارا جاتا تھا وہیں کچھ لوگوں نے انہیں ’’کانڈھا ملتانی‘‘ کے نام سے بھی یاد کرنا شروع کیا۔آپ نے نامور شاعر’’ارشد ملتانی‘‘ مرحوم کے فن اور شخصیت پر ایک کتاب بھی مرتب کی۔ زندگی کے آخری ایام میں گردے فیل ہوجانے کے باعث ایک ماہ تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے اور یکم اپریل2013ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
فیس بک کمینٹ