جن زمانوں میں میری حیات کا تسلسل صبح کی نشریات کی میزبانی تھا ان دنوں میرے پروگرام کیلئے خصوصی طور پر تیار کردہ لاہور ٹیلی ویژن کی جانب سے ایک ایسی ڈاکومنٹری وصول ہوئی جسے دیکھ کر میں اپنی آنکھوں پر یقین نہ کر سکا کہ یہ خواب ہے کہ سراب ہے۔ سرسبز کھیتوں کے درمیان میں ٹرین کے ڈبے ایک پٹڑی پر چلے جا رہے ہیں۔ ان میں مسافر سوار ہیں اور ان ڈبوں کے آگے ریلوے انجن نہیں ہے۔ بلکہ گھوڑے بندھے ہوئے ہیں جو انہیں کھینچتے چلے جا رہے ہیں۔ یا وحشت یہ کیا شے ہے۔ ایک گھوڑا ٹرین…ڈاکو منٹری کے پس منظر میں جو کومنٹری رواں تھی اس نے یہ گتھی سلجھا دی ان زمانوں میں انگریز سرکار ایک نئی ٹرین چلانے کے لئے پٹڑی بچھا رہی تھی۔ لاہور کے سب سے بڑے محسن سرگنگارام کا گاؤں گنگا پور بھی اس کے نواح میں واقع تھا۔ سرگنگا رام کی شدید خواہش تھی کہ یہ ٹرین گنگا پور کے راستے آگے جائے تاکہ ان کے گاؤں کے بچے تعلیم حاصل کرنے کی خاطر لاہور جا سکیں اور اسی روز واپس آ سکیں لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا ٹرین گنگا پور سے شائد سات کلو میٹر کے فاصلے سے گزرنے لگی۔ تب گنگا رام کا جینئس دماغ کام آیا۔ انہوں نے مغل پورہ ورکشاپ سے ٹرین کی پرانی پٹڑیاں خریدیں اور انہیں گنگا پور سے اس سٹیشن تک بچھا دیا جہاں سے نئی ٹرین چھک چھک کرتی گزرتی تھی۔ ان پٹڑیوں پر ٹرین کے دو ڈبے اور وہ بھی مغل پورہ ورکشاپ سے خرید کردہ لگائے گئے اور انکے آگے گھوڑے باندھ دیے گئے۔ گھوڑے ان پٹڑیوں کے درمیان میں چلتے تھے اور انکے پیچھے طالبعلموں سے بھرے ہوئے ڈبے چلے آتے تھے۔ یہ طالبعلم نئے سٹیشن پر آنے والی ٹرین پر بیٹھ کر لاہور جاتے۔ تعلیم حاصل کرتے۔ نئی ٹرین پر بیٹھ کر شام کو واپس آتے جہاں وہ گھوڑا ٹرین ان کی منتظر ہوتی جو انہیں ان کے گاؤں لے جاتی۔ اس ڈاکومنٹری کو فرمائش پر متعدد بار دکھایا گیا۔ میرا گمان ہے کہ لاہور تک رسائی آسان ہو جانے کے باوجود یہ گھوڑا ٹرین اب بھی موجود ہے اور کسی نہ کسی حوالے سے مستعمل ہے۔ میں نے اپنی کتاب ’’لاہور آوارگی‘‘ میں گنگا رام کے بارے میں ایک تفصیلی باب ’’فادر آف لاہور‘‘ کے نام سے لکھا ہے کہ آج کا لاہور اسی ایک شخص کی ناقابل یقین کوششوں سے وجود میں آیا۔ گنگا رام اپنے کارناموں اور دنیاوی بھلائی کے حوالے سے ایک داستانوی کردار لگتا ہے۔ اس نے رینالہ خورد منٹگمری میں پچاس ہزار ایکڑ نہیں تقریباً دو سو مربع زمین جو بنجر پڑی تھی کہ وہاں کے نہری نظام کی سطح سے قدرے بلند تھی سیراب نہ ہو سکتی تھی۔ گنگا رام نے جدید ترین جرمن ٹیکنالوجی وہاں لگائی اور ایک ایسا تکنیکی نظام تعمیر کیا کہ پانی ویران زمین کی سطح تک آ گیا اور وہ مکمل طور پر آباد ہو گئی۔ یہ نظام آج بھی قائم ہے۔ اسی طور اس نے اپنے گائوں گنگا پور کو بھی سیراب کیا۔ گنگا رام کے محیر العقول کارناموں کے بارے میں تفصیل سے لکھنے کے لئے ایک ضخیم دستاویز درکار ہے۔ انہوں نے لاہور کی بیشتر عمارتوں کو نہ صرف ڈیزائن کیا بلکہ ان کے سوا تاریخی نوعیت کی عمارتوں کی تعمیر کے نگران بھی ہوئے۔ مثلاً لاہور کا جنرل پوسٹ آفس۔ لاہور عجائب گھر۔ ایچی سن کالج کا وسیع تعلیمی کامپلیکس ۔ نیشنل کالج آف آرٹس۔ گنگا رام ہسپتال‘ لیڈی میکلیگن گرلز ہائی سکول‘ گورنمنٹ کالج کا کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ ۔ میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر وارڈ۔ لاہور ہائی کورٹ۔ گنگا رام ہائی سکول جو ان دنوں لاہور کالج فار وومن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہیلی کالج آف کامرس۔ مال روڈ پر گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ جسے اب فضل دین مینشن کہا جاتا ہے۔ لاہور کی پہلی جدید آبادی ماڈل ٹائون۔ پٹھانکوٹ اور امرتسر کے درمیان ریل گاڑی۔ برصغیر میں پہلا’’امن گھر‘‘ بیوہ عورتوں کے لئے اور ان دنوں دلی کا سب سے اہم ہسپتال‘ گنگا رام ہسپتال۔ ان منصوبوں میں بھائی رام سنگھ آر کی ٹیکٹ کی کاوشیں بھی شامل تھیں اور قصہ جس کا تذکرہ کم ہوتا ہے گنگا رام نے ان زمانوں میں محسوس کر لیا تھا کہ آئندہ زمانے اقتصادیات اور کاروبار کے ہیں چنانچہ انہوں نے انگریز سرکار کو مائل کیا کہ لاہور میں ایک کامرس کالج قائم کیا جائے۔ گورنر ہاؤس کی ایک میٹنگ میں رپورٹ پیش کی گئی کہ کامرس کالج کے لئے پوری منصوبہ بندی کی جا چکی ہے اور جونہی کوئی مناسب عمارت میسر آئے گی اسے شروع کر دیا جائے گا۔ گنگا رام نے گورنر کی میز پر اپنی وسیع رہائش گاہ کی چابیاں رکھ دیں کہ میں اپنا یہ گھر کامرس کالج کے لئے وقف کرتا ہوں اور اگلے روز کالج کی کلاسوں کا آغاز ہو گیا۔ وہ اپنے ایک اور گھر میں اسی روز منتقل ہو گئے کہ لاہور میں ان کے تین چار گھر تھے ان میں سے ایک اندرون شہر آج بھی موجود ہے اور میں اسے ذاتی طور پر دیکھ چکا ہوں ان کی موت پر گورنر پنجاب نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک بہادر ہیرو کی مانند ہمیشہ ہر شے کو تسخیر کر لیتا تھا اور ایک سینٹ یا صوفی کی مانند اپنی دولت لوگوں میں بانٹ دیتا تھا۔ آج گنگا رام کا پڑپوتا ڈاکٹر آشون رام جارجیا کے ایک کالج میں پروفیسر ہے اور ان کی پڑپوتی شیلا ایک بیرونس برطانیہ میں پڑھاتی ہے اور سیاست میں متحرک ہے۔ بابری مسجد کے ردعمل میں جہاں بہت سے ہندو اور جین مندر اور گوردوارے مسمار کئے گئے وہاں لاہور کے سب سے بڑے محسن سرگنگارام کی سمادھی کی بھی شامت آ گئی۔ ان کی پڑپوتی شیلا نے لاہور آ کر اسے دوبارہ تعمیر کیا بلکہ گنگا رام ہسپتال کیلئے بھی ایک خطیر رقم وقف کر دی۔ لاہور کی ایک اور سرد سویر میں ہم گنگا رام کی سمادھی کے احاطے میں کھڑے اسکے کارناموں کو یاد کر رہے تھے۔ سمادھی کی عمارت بہت سادہ اور گنبدار ساخت کی ہے۔ صدیق شہزاد نے اسکی نشاندہی میں مدد کی۔ یہ راوی روڈ پر آزادی چوک کے قریب گھنی گلیوں کے درمیان پوشیدہ ہے۔اب اسکی مناسب دیکھ بھال کی جا رہی ہے سمادھی کے دروازے بند تھے۔ ہم نے اندر جھانکا تو ایک چبوترا تھا جس پر فلیکس کا پردہ آویزاں تھا اور اس پر گنگارام کی رعب دار تصویر نقش تھی۔ ظاہر ہے چبوترے کے اندر اس کی راکھ دفن تھی۔ سویر کی مدھم زرد روشنی میں سمادھی کسی مغل مقبرے سے مشابہ تھی۔ گنگا رام نے اس شہر کو بے مثال بنایا اور بادشاہوں سے بڑھ کر اس کی مخلوق کی فلاح کیلئے کام کئے۔ مجھے بچوں کی وہ نظم یاد آنے لگی کہ…ہیں لوگ وہی دنیا میں اچھے۔ آتے ہیں جو کام دوسروں کے۔ گنگا رام کی سمادھی کی ’’زیارت‘‘ کرنے کے بعد ہم نے دریائے ایراوتی۔ پاروشی یا آج کے دریائے راوی کا رخ کیا۔ ہم آج ان مقامات کو دوبارہ دیکھنا چاہتے تھے جنہیں ہم نے ایک مدت پیشتر کبھی دیکھا تھا۔ جو ہماری جوانی کی یادگاریں تھے اور ان میں سے ایک کامران کی بارہ دری تھی۔ وہاں پہنچنے کیلئے ایک بوڑھے ملاح کی کشتی پر سوار ہوئے تو وہ کشتی پانیوں پر نہیں لاہور کی آلودگی پر ہولے ہولے سرکتی تھی۔ جیسے ہم کسی گندے نالے میں بہتے جا رہے ہوں۔ اتنی بو تھی۔ راوی کیا تھا لاہور کا گٹر تھا۔ کیا یہ وہی راوی ہے جس کے بارے میں رومانوی لوک گیت لکھے گئے۔ وگدی اے راوی ۔ جانیں دیجئے راوی نہ کوئی آوی نہ کوئی جاوی۔ علامہ اقبال نے اپنی ڈائری میں راوی کی سویر کو دنیا کا حسین ترین منظر قرار دیا ہے۔ ہم نے راوی کے ساتھ وہی سلوک کیا جو علامہ اقبال کے ساتھ کیا ہے۔ ان کی پاکیزگی اور پوترتا کو آلودہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کے شاندار بہاؤکے راستے میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔ ہم نے دونوں کی قدر نہ کی۔ راوی کے پل پر کھڑے لوگ ضعیف العتقاد لوگ۔ بلاؤں کو دور کرنے کی خاطر چیلوں کی جانب گوشت کے چھیچھڑے اچھال رہے تھے اور وہ ان پر جھپٹ رہی تھیں اور تو اور فوم کو سرخ رنگ میں بھگو کر گوشت کی شکل بھی دی جاتی تھی اور روزانہ کئی چیلیں انہیں نگل کر ہلاک ہو جاتی تھیں یعنی یہاں بھی آلودگی تھی۔ ہم کتنے ایماندار لوگ ہیں اب ہم راوی میں پھول نہیں ڈالتے مردہ چیلیں ڈالتے ہیں۔ شہر کی گندگی ڈالتے ہیں کہ زندہ قوموں کی یہی نشانیاں ہیں۔ (جاری) ہماری کشتی ڈولتی ہوئی پاروشی کے آلودہ پانیوں میں سرکتی کامران کی بارہ دری کی جانب بڑھتی جاتی تھی اور وہاں دھند تھی۔ بڑھتی جاتی دھند تھی اور اس کے پیچھے شہر تھا۔ کامران کی بارہ دری تھی۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ