یہ غالباً 91ء کا قصہ ہے جب صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی عطا کئے جانے کے بعد اسلام آباد کے ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر نے مجھ سے معمول کا ایک سوال کیا کہ آپ کا اس ایوارڈ کے بارے میں کیا تاثر ہے اور میں نے کہا تھا کہ تمغہ حسن کارکردگی ایک ایسا اصطبل ہے جس میں عربی گھوڑے اور خچر ساتھ ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔ اس بیان پر مجھ سے پہلے اپنے زور بازو سے ایوارڈ’’حاصل‘‘ کرنے والے ایک دو ادیبوں نے بہت غل مچایا کہ تارڑ نے ہمیں خچر کہا ہے۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ نہیں نہیں حضور میں نے تو آپ کو عربی گھوڑے کہا ہے پر انہیں یقین نہ آیا کہ وہ ہنہنا نہیں سکتے تھے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس بار جو اعلیٰ ٹپ ایوارڈ دیے گئے ان میں شائد خچروں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ چند ایک عربی گھوڑے بھی شرمندہ شرمندہ سے پھرتے ہیں کہ اس ایوارڈ کی عاشقی میں تو عزت اسپ بھی گئی۔ اسی لئے تو برادر عامر خاکوانی نے اتنا ماتمی کالم ان ایوارڈز کی خوشی میں لکھا ہے۔ میرا قطعی طور پر اس موضوع کو چھیڑنے کا ارادہ نہ تھا۔ میں تو خاکوانی کی شہ پر کود پڑا ہوں کہ مجھے کیا‘ بھڑوں کے چھتے کو چھیڑا اس نے ہے۔ یہی بھگتے گا۔ خاکوانی نے بہت خوب لکھا لیکن مجھے جہاں اس کی بیشتر باتوں سے اتفاق ہے تو کچھ پہلو اختلاف کے بھی ہیں۔ دراصل ہماری بیشتر حکومتوں نے فلم کے لوگوں سے ایوارڈ کے سلسلے میں ہمیشہ غفلت اختیار کی ہے۔ ٹیلی ویژن ان کا چہیتا رہا ہے اور یوں ٹیلی ویژن پر نمودار ہونے والے ہر نتھو خیرے کو دھڑا دھڑ ایوارڈ دیے گئے (ان میں مجھے بھی شامل کر لیجیے کہ صدارتی ایوارڈ مجھے ادب پر نہیں ٹیلی ویژن کی میزبانی اور ڈرامہ نگاری پر دیا گیا تھا۔ بلکہ میں اور طارق عزیز ٹیلی ویژن کی تاریخ میں پہلے پرائڈ آف پرفارمنس میزبان تھے) مجھے نہیں معلوم کہ فلم کے لوگوں کو اچھوت کیوں سمجھا گیا۔ کسی آئندہ کالم میں فلم کے حوالے سے میں درجنوں ایسے نام درج کروں گا جو صرف صدارتی ایوارڈ ہی نہیں ملک کے سب سے بڑے ایوارڈ کے حقدار ٹھہرتے تھے۔ درست کہ ناصر ادیب۔ بابرا شریف اور ریما نے ان زمانوں میں کچھ زیادہ کام نہیں کیا لیکن ناصر ادیب نے ’’مولا جٹ‘‘ نام سے جو توپ چلائی تھی جس نے نہ صرف دھومیں مچا دیں بلکہ ہمارے کلچر کو بھی مسمار کر دیا۔ تو اسے ایوارڈ دینا کچھ ایسی بری بات نہیں۔ بابرا شریف ابھی پچھلے دنوں ایک فنکشن میں مجھے اتنی گرمجوشی سے ملی تھی کہ میری بیگم نے بھی تیوڑی چڑھا لی تو گرم جوش لوگوں کو چلئے دیر آید درست آید۔ ایوارڈ ملنا چاہیے اور ریما نے اس دوران ایک جادوگر دکھائی دیتے متمول امریکی سرجن کا بائی پاس کر دیا تو کیا یہ ’’کارکردگی‘‘ کم ہے اور باقی رہ گئی مہوش حیات تو عامر خاکوانی کیا تمہارے سینے میں دل نہیں ہے۔ یہ ایوارڈ حسن کارکردگی کہلاتا ہے ناں۔ تو مہوش میں حسن تو ہے ناں۔ اداکاری کو ہم نے کیا کرنا ہے۔ خدا جب حسن دیتا ہے تو اداکاری آ ہی جاتی ہے۔ ایشوریا رائے کی مثال آپ کے سامنے ہے۔شاہد حمید کے بارے میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جب مجھے ماسکو یونیورسٹی نے سرکاری طور پر لیکچرز کے لئے مدعو کیا اور ان میں سے ایک لیکچر اردو ادب پر روسی ادب کے اثرات کے بارے میں تھا تو میں نے نہائت فخر سے شاہد حمید کا ’’واراینڈ پیس‘‘ کا اردو ترجمہ یونیورسٹی کی لائبریری کے لئے پیش کیا تھا اور روسی اردو سکالرز نے اسے بے حد سراہا تھا اور ان میں فیض صاحب کی دوست اور کسی حد تک میری بھی دوست ڈاکٹر لڈمیلا واسا لووا اور میری محسن جنہوں نے آج سے تیس سال پیشتر میری چند تحریروں کو یونیورسٹی کے اردو نصاب میں شامل کیا تھا۔ پروفیسر گالینا ڈشنکو بھی شامل تھی۔ ماسکو سے واپسی پر میں نے شاہد حمید صاحب سے تذکرہ کیا تو ان کے چہرے پر ایک طمانیت بھری مسرت پھوٹنے لگی تو شاہد حمید کو اگر یہ ایوارڈ دیا جاتا تو کم از کم یہ ایوارڈ کچھ معزز ہو جاتا۔ اس کی توقیر میں اضافہ دراصل تب ہوتا جب اسد محمد خان اور ڈاکٹر حسن منظر بھی اس فہرست میں شامل ہوتے۔ کمال ہے کہ ادب کے ’’انوکھے لاڈلے‘‘ اسد محمد خان سے یہ مجرمانہ سلوک کیا جائے۔ خان صاحب جیسی کہانی اردو ادب میں کسی نے نہ لکھی۔ ذرا پڑھئے تو سہی۔ میں نے ہمیشہ انہیں اپنا پسندیدہ ترین افسانہ نگار قرار دیا اور تب انتظار حسین بھی حیات تھے۔ خاکوانی نے جتنے بھی ناول نگاروں کا تذکرہ کیا ہے۔ عاصم بٹ‘ اختر رضا سلیمی وغیرہ ان کی فکشن کی صلاحیت سے انکار کرنے والا خود بے بہرہ ہے۔ البتہ اس فہرست میں براہ کرم طاہرہ اقبال کو ضرور شامل کر لیجیے کہ صرف ’’نیلی بار‘‘ ہی ان کو بڑے ناول نگاروں کی صف میں لاکھڑا کرتا ہے۔بلکہ سرحد پار رہنے والے ایک سکھ بوڑھے نے میرا ناول’’خس و خاشاک زمانے‘‘ پڑھ کر مجھے ایک ایسا کامپلیمنٹ پیش کیا جو ثابت کرتا تھا کہ سردار صاحب کے بارہ بجے پکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پتر تاڑر‘ سکھ رہتل اور پنجاب کی ثقافت کو جس طرح تم نے بیان کیا ہے۔ شائد بلونت سنگھ اور بیدی نے بھی نہیں کیا تھا۔ اور میں نے ان سے کہا تھا کہ یہ دونوں میرے مرشد ہیں مجھے گنہگار نہ کیجیے لیکن یہاں طاہرہ اقبال جس طرح پنجاب کی منہ زور ثقافت کے اتھرے گھوڑے کو اپنی فکشن میں مطیع کرتی ہے وہ میرے بس کی بات بھی نہیں۔ طاہرہ مجھ پر سبقت رکھتی ہے اور ہاں ویسے خالد فتح محمد نے کیا قصور کیا ہے۔ وہ مسلسل ناول لکھ رہے ہیں اور ان کے ہر ناول میں فکشن کی واڈکا شراب کا زور آور خمار ہے۔ ’’خلیج‘‘ اور ’’ٹبہ‘‘ پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ اور ہاں خاکوانی نے محترم احمد جاوید کا تذکرہ کیا۔ کچھ برس پیشتر ہم دونوں کو ریاض میں مقیم پاکستانیوں نے خصوصی طور پر مدعو کیا۔ احمد جاوید کی گفتگو نے سب پر سحر طاری کر دیا۔ اگرچہ انہوں نے اپنی تقریر کے دوران میرے ناول ’’راکھ‘‘ کا تفصیلی تذکرہ بھی کیا پر وہ مجھے اچھے نہ لگے کہ ان کے بعد میری تقریر پھیکی ہی رہی۔ یہاں تک کہ میری بیگم نے بھی توصیف کی۔ یہ تو ممکن ہی نہ تھا کہ ہم اس کی گلی میں جاتے اور اس کے در پر حاضری نہ دیتے۔ ریاض سے ہم بائی ایئر مدنیہ منورہ پہنچے اور میں گواہ ہوں کہ وہاں بھی احمد جاوید کے اتنے مداح تھے کہ وہ مجھ سے غافل ہو گئے چنانچہ وہ پھر مجھے اچھے نہ لگے۔ خاکوانی نے واقعی ان نایاب جواہر کی تلاش میں بہت خاک چھانی ہے جن کا حق تھا کہ انہیں ایوارڈ سے نوازا جاتا۔ صحافت ان کا شعبہ ہے وہ مجھ سے بہتر جانتے ہیں لیکن کم از کم میں حسین نقی‘ احفاظ الرحمن اور ارشاد عارف کو تو جانتا ہوں جب کہ اہل اقتدار نہیں جانتے۔ میں نے کھوسہ خاندان کے ایک فرد اور ڈاکٹر عباس برمانی کی دعوت پر دریائے سندھ کے کناروں پر ایک شاندار جھونپڑے میں کچھ وقت بسر کیا جہاں عزیز شاہد اور آشو لال بھی موجود تھے۔ ہم نے چاندنی راتوں میں ان کا کلام سنا تو سندھ کے پرسکون پانی بھی پرجوش ہو گئے۔ عزیز شاہد کا انداز کلاسیکی تھا اور آشو لال کی شاعری ایسی تھی کہ دریائے سندھ کی نابینا ڈولفن سن لے تو وہ بھی دیکھنے لگے۔ اگر اب تک انہیں ایوارڈ نہیں ملا تو گویا شاعری کو نہیں ملا۔ (جاری)
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ