چہروں کی مانند بعض تصویریں، سکیچ یا نقش اپنے اندر کوئی ایسی دل کشی رکھتے ہیں کہ وہ یاد رہ جاتے ہیں۔ بے انت چہرے۔ تصویریں، سکیچ یا نقش بھول جاتے ہیں اور کچھ دل کے نہاں خانوں میں کہیں ثبت ہو جاتے ہیں، یاد رہ جاتے ہیں۔ جیسے شفیق الرحمن نے مجھے ’’الحمرا کی کہانیاں‘‘ کا ایک قدیم نسخہ تحفے کے طور پر بھیجا جس میں قصر الحمراء کے ایوانوں، محرابوں اور باغوں کے پین اینڈانک کے بلیک اینڈ وہائٹ سکیچ پر باب کے آغاز میں نظر نواز ہوتے تھے اور ان میں ایک سکیچ ایسا تھا جس میں الحمرا کا عالی شان باب العدل ایک تنہا اور اداس کیفیت میں بلند ہوتا تھا اور یہ سکیچ مجھے یاد رہ گیا اور جب میں نے اس سرخ قصر میں داخلے پر اپنی آنکھوں سے یہ باب العدل دیکھا تو مجھ پر اداسی کی ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔ دل کے نہاں خانوں میں ثبت وہ سکیچ اور وہ جو میرے سامنے باب العدل تھا۔ ایک دوسرے پر منطبق ہو گئے۔ ایک ہو گئے۔ کچھ ایسے ہی میں نے بہت مدت پہلے لاہور کے آثار کے بارے میں ایک کتاب میں ایک قدیم مقبرے کا سکیچ دیکھا تھا۔ تنہا اور اداس ایک چوکور عمارت ہے جو بہت بلند ہے، کس حد تک اشبیلیہ کے جیرالڈا مینار کی مانند چوکور ساخت کی ہے۔ کسی سہہ منزلہ مکان جتنی بلند ہے اور اس کی آخری منزل کے چاروں اور دیواروں پر سروکے درخت دکھائی دے رہے ہیں جن کے درمیان میں نیلے رنگ کے عجب گل کھلے ہیں۔ میں نے آج تک کسی مقبرے کی عمارت ایسی تو نہ دیکھی تھی کہ چوکور ساخت کی ہو اور بلندی پر چھت کے چھجے تھے سروثمن بہار دیتے ہوں۔ اگر غور کرتے ہیں تو سرو کے درختوں کے سبز پتے الگ الگ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سکیم ’’سرو والا مقبرہ‘‘ کا تھا۔ اور آج میں اس مینار نما انوکھے مدفن کے سامنے کھڑا تھا۔ یہاں بھی وہ قدیم تصویر جو میرے اندر ثبت تھی اور وہ عمارت جو میری آنکھوں میں جا کرتی تھی، دونوں یوں ایک ہو گئے جیسے خواب اور حقیقت آپس میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ مجھے ایک مدت سے تمنا تھی کہ میں اسے کبھی اپنی آنکھوں سے دیکھوں، مجھے یہ تو علم تھا کہ یہ منفرد تعمیر کا سرو کے درختوں سے تزئین شدہ مقبرہ یہیں کہیں لاہور کے آس پاس ہے۔ لیکن یہ کہاں ہے۔ میں اس کے محل وقوع سے مکمل طور پر لا علم تھا۔ یہاں بھی صدیق شہزاد رہنما ہوا اور مجھے اس کے وجود کی خوابناکی تک لے آیا۔ بے شک اس دنیا بھر کے مقبروں سے جدا برج نما طرز تعمیر اور بلندی پر تصویر ہوتے سرو کے شجروں سے مجھے تسخیر کیا لیکن شعلہ جس نے مجھے پھونکاوہ ایک حیرت ناک داستان میں سے اٹھا۔ جو اس مقبرے میں دفن شہزادی سے منسلک تھی۔ داستان بھی ایسی جیسے اسے شہرزاد کے زرخیز ذہن نے اپنی جان بچانے کے لیے تخلیق کیا۔ سر اٹھائے ایک داستان حیرت میں گم میں اس مقبرے پر نقش سرو کے درختوں کو دیکھتا تھا اور ایک عجب الجھن میں تھا، اس شہزادی کو کیسے اس بلندی پر دفن کیا گیا، وہ خاک نشیبی نہ تھی عرش نشیں تھی تو کیسے تھی اور کیوں تھی اور میں آج تک اس الجھن میں مبتلا ہوں، اسے سلجھا نہ سکا۔ محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے آویزاں کیے گئے تعارفی بورڈ پر کچھ مدھم عبارتیں بمشکل پڑھی جاتی تھیں۔ ’’سرو والا مقبرہ‘‘ سرو والا مقبرہ پختہ اینٹوں سے بنائی گئی ایک مربع نما عمارت ہے جس کی چھت پر چھجا ہے اور چھجے کے اوپر ایک مخروطی کم بلند گنبد بنا ہوا ہے۔ یہ عمارت شرف النسا کا مقبرہ ہے جو کہ نواب زکریا خان کی ہمشیرہ تھی۔ نواب زکریا خان مغل شہنشاہ محمد شاہ (1719ء تا 1784ئ) کے دور میں لاہور کا گورنر تھا۔ یہ مقبرہ مقامی طور پر سرو والا مقبرہ کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ اس مقبرے کی چاروں دیواروں کی چوکٹھوں کو رنگین کاشی ٹائلوں کی مدد سے سرو کے بلند پودوں سے آراستہ کیا گیا ہے۔ ہر دیوار پر چار چار سبز رنگ کے سرو کے بلند پودے بنے ہیں اور ہر دو پودوں کے درمیان ایک چھوٹا پھولدار پودا بنا ہوا ہے۔ یہ مقبرہ مغلیہ دور میں لاہور میں بننے والی آخری عمارتوں میں سے ایک ہے۔ تاریخ میں آتا ہے کہ یہ مینار نما مقبرہ کبھی ایک خوبصورت باغ اور حوض سے گھرا ہوا تھا مگر اب اس کے گرد کچھ بھی نہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس مقبرے میں قبر والا حصہ 16فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور اس تک رسائی صرف سیڑھی سے ہی ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے ایسا اس لیے کیا گیا ہو کہ اس نیک بی بی کی اصل قبر نظروں سے چھپی رہے‘‘ اس تعارفی عبارت میں کہیں بھی اس داستانوی داستان کا تذکرہ نہیں جو اس شہزادی کی حیات کو اک عجب فسوں میں سراب کرتی ہے۔ ویسے حسن ابدال میں واقع اور لداخ کا تاریخی مدفن بھی زمین سے تقریباً آٹھ فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ اسے بھی انارکلی کی مانند مبینہ طور میں کسی جرم کی پاداش میں دیوار میں چنا گیا ہو اور اردگرد قبر کی دیواریں تعمیر کر دی گئی ہوں لیکن شہزادی شر ف النساء تو کہیں بلندی پر مدفون ہے تو اسے کیسے وہاں دفن کیا گیا۔ کیا پہلے ایک چبوترہ تعمیر کیا گیا اور اس میں اس کا تابوت اتار کر اردگرد یہ عمارت کھڑی کر دی گئی ہو۔ یہ الجھن سلجھنے والی نہیں۔ چلئے ایک مرتبہ پھر ہم منشی کنہیا لال سے رجوع کرتے ہیں جو نہ صرف ایک محقق اور ماہر تعمیرات تھا بلکہ فارسی پر اتنا عبور رکھتا تھا کہ فارسی شاعری میں بھی بے مثال تھا۔ مقبرہ شرف النسا بیگم المعروف شریفہ بیگم شہر لاہور میں شرقی سمت کے مقبروں میں یہ مقبرہ قدیم عمارت میں سے ہے۔ اس مقبرے پر کانسی کے کام میں بڑے بڑے سرو نقش ہیں۔(یہ ایک حیرت انگیز تفصیل ہے کہ یہ سرو کاشی اینٹوں کی پچی کاری سے نہیں بلکہ کانسی کے کام سے بنائے گئے تھے) اس سبب سے اس کو سرو والا مقبرہ کہتے ہیں۔ یہ مقبرہ بہت بلند اور اونچا ہے۔ اول زمین سے دو قدِ آدم بلند عمارت خشتی سادہ ہے اور اس کے اوپر چاروں طرف گنبد تک کانسی کا کام نہایت خوبی سے بنا ہوا ہے۔ غرب کی سمت ایک دروازہ ہے۔ شرف النسا ہمشیرہ نواب خان بہادر نے اپنی زندگی میں یہ مقبرہ بنوایا تھا اور ہر روز ایک گھنٹہ بعد نماز ظہر کے یہاں آتی اور قرآن پڑھتی تھی، بعد تلاوت کے خود تو محلوں میں چلی جاتی تھی مگر قرآن شریف اور ایک تلوار یہاں چھوڑ جاتی تھی۔ جب وہ مرنے لگی تو نصیحت کی کہ میری قبر اس مقبرہ میں ہو اور میرا قرآن اور تلوار بھی اس مقبرہ کے اندر رہے اور مقبرہ اس طرح بے زینہ۔ آخر جب مغلیہ سلطنت جاتی رہی اور سکھی زمانہ آیا تو سکھوں نے اس تلوار و قرآن کو اندر سے نکالا…کہتے ہیں کہ کئی ہزار روپے کی مالیت کا وہ قرآن اور تلوار تھی‘‘(جاری)
(بشکریہ: روزنامہ92نیوز)
فیس بک کمینٹ