فرید کی سفید مینڈکی پھر سے رواں ہو گئی۔ دراصل اس کی کار میڈ ان جاپان ہے اور اس کا ناک نقشہ بھی جاپانی سا ہے یعنی سامنے سے ایک چپٹی ناک والی گیشگرل لگتی ہے چنانچہ میں اسے پیار سے’’ڈڈی‘‘ یعنی مینڈکی کہتا ہوں۔ فرید بالکل مائنڈ نہیں کرتے بلکہ اسے صبح سویرے پارک میں آنے سے دیر ہو جائے تو نہائت سنجیدگی سے کہتا ہے۔ دراصل رات کو کچھ چھینٹے پڑے تو مینڈکی بے چاری گندی ہو گئی میں اسے نہلا رہا تھا اس لئے دیر ہو گئی۔ شیمپو بھی تو کرنا تھا۔ گلیوں اور تنگ بازاروں میں سفر کرنے کے لئے یہ مینڈکی بہت کارآمد ہے۔ وہ تنگ آبادیوں اور پیچیدہ گلیوں کے درمیان ایک وسیع ویران قطعے کے ایک کونے میںعجب فحش انداز میں کھڑا تھا۔ ہم اسے چھو نہیں سکتے تھے کہ صد شکر محکمہ آشار قدیمہ نے اس کے آگے ایک طویل آہنی جنگلہ ایستادہ کر کے اسے محفوظ کر لیا تھا۔ قطعے کے گرد تین اطراف میں بھدے سے سیمنٹ زدہ مکان کچھ تو پشت کئے کھڑے تھے اور ان کی دیواروں میںسے ایئر کنڈیشنر معلق تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ میکانکی آنکھیں ہیں جو صدیوں پرانی اس تعمیر کو حیرت سے تک رہی ہیں اور چوتھی جانب جہاں گلی رواں تھی وہاں آہنی جنگلہ دور تک چلا جاتا تھا۔ کوس مینار کسی حد تک سمر قند کے میناروں کی مانند ایک بڑے گھیرے کی بنیاد سے شروع ہوتا تھا اور پھر اس کا گھیر کم ہوتا چلا جاتا تھا یہاں تک کہ اپنی پوری بلندی تک پہنچنے کے بعد وہ قدرے چھریرے بدن ہو جاتا تھا۔ قطب مینار کی ہئیت بھی تقریباً ایسی ہی ہے لیکن اس کی دل کشی کا کیا کہئے یونہی طرز تعمیر کا موازنہ کر بیٹھا کوس مینار کا نچلا حصہ قدیم پلستر سے عاری ہو چکا ہے اور اس کی چھوٹی اینٹوں کی چنائی عیاں ہو چکی ہے البتہ بالائی حصہ تمام ابھی تک بارشوں سے سرمئی ہو چکے پلستر سے ڈھکا ہوا ہے۔ میں کوس مینار کی تفصیل میں کھو گیا اور یہ بیان نہ کر سکا کہ اس کی پہلی جھلک نظر آئی تو مجھ پر کیا بیت گئی۔ میں نے کہیں پڑھ رکھا تھا کہ لاہور میں کہیں ایک کوس مینار ابھی تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہے لیکن اس کے محل وقوع کے بارے میں لاعلم تھا۔ یہ کوئی شاہکار یا دل کش عمارت نہیں ہے۔ اینٹوں کا ایک ڈھیر ہے جو مختصر ہوتا بلند ہوتا جاتا ہے لیکن اس کی اثر انگیزی میں کچھ کلام نہیں یعنی آپ گلی کوچوں میں بھٹکتے‘ آبادیاں آپ پر امڈتی جاتی ہیں اور جب ایک موڑ پر مڑتے ہیں تو سامنے ایک سینکڑوں برس پرانی تعمیر سر اٹھائے کھڑی ہے۔ شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ جی ٹی روڈ یا جرنیلی سڑک کلکتہ سے شروع ہو کر پشاور تک چلی جا رہی ہے اس کے کناروں پر مناسب فاصلوں پر مسافر خانے کارواں سرائے کنویں اور باؤلیاں ہیں۔ گھوڑوں کے لئے اصطبل ہیں اور وہاں جانوروں کے معالج ہیں۔ طعام خانے ہیں اور ہر دس کوس کے فاصلے پر ایک ایسا ہی کوس مینار نہائت مستحکم حالت میں ایستادہ فاصلوں کی نشاندہی کر رہا ہے۔ آپ تصور کیجیے کہ اس کوس مینار کے پہلو میں سے کون کون نہ گزرا ہو گا۔ اس کی نابینا آنکھوں نے کیا کیا نہ دیکھا ہو گا تاجروں کے کارواں ۔۔سمر قند و بخارا تابہ خاک کاشغر ‘ شیر شاہ سوری کے شاہی قافلے اور لائو لشکر جن کی منزل شائد روہتاس کا قلعہ ہے۔ حملہ آور ہوتی اور پسپا ہوتی افواج۔ پیغام رساں شاہی ہرکارے اور شائد کچھ درویش اور مجذوب اپنے زمانوں کے مجھ جیسے آوارہ گرد اس لئے آبادیوں میں گھرے اس کوس مینار کو دیکھ کر مجھے اس کی تنہائی پر بے حد ترس آیا۔ شنید ہے کہ اس نوعیت کا صرف ایک اور کوس مینار ہندوستان میں کہیں موجود ہے اور بقیہ سینکڑوں مینار کب کے زمیں بوس ہو چکے۔ میں نے شائد کسی ناول میں لکھا تھا کہ آپ کھڑے رہتے ہیں اور زمانہ گزر جاتا ہے یا شائد آپ گزر جاتے ہیں اور زمانہ وہیں موجود رہتا ہے۔ کوس مینار البتہ وہیں کھڑا ہے اور زمانے گزر گئے ہیں ایک بہت پرانی تصویر میں یہی لاہور کا کوس مینار ایک ویرانے میں کھڑا ہے۔ آس پاس دور دور تک کوئی آبادی نہیں اور کوئی نامعلوم شخص مینار کے قریب دکھائی دے رہا ہے اور یہ تصویر 1901ء میں اتاری گئی تھی کیسے تقریباً سوا سو برس کے اندر اندر کوس مینار کے گرد آبادیوں کے جنگل اگ آئے ہیں اور اس کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ میری امی جان اور خالہ جان اپنی ٹھیٹھ پنجابی میں نہائت شاندار محاورے ستاروں کی طرح ٹانکتی چلی جاتی تھیں ایک روز خالہ جان گاؤں سے آئیں اور تب میں شائد پچاس برس کا تھا۔ مجھے جپھا مار کر منہ ماتھا چوم کر پوچھنے لگیں۔ مستنصر کیا حال ہے تو میں نے کہا خالہ جان عمر کچھ زیادہ ہو گئی ہے تھک جاتا ہوں تو کہنے لگیں لو یہ کیا بات کرتے ہو کوہ نہ ٹُری تے بابا ترھیائی۔ یعنی ابھی تم ایک کوس نہیں چلے اور کہتے ہو بابا مجھے پیاس لگ گئی ہے۔ پنجاب کے دیہات میں اب بھی فاصلے کا پیمانہ کوہ یعنی کوس ہی ہے۔ میل اور کلو میٹر ابھی تک وہاں نہیں پہنچے۔ اس کوس مینار کو دیکھ کر مجھے خالہ جان یاد آ گئیں اگر وہ اب تک حیات ہوتیں تو ان سے پوچھتا کہ خالہ اب تومیں زندگی کی شاہراہ پر اسی کوس کی سافت طے کر چکا۔ پیاس سے نڈھال ہو چکا اب کون سا محاورہ استعمال کر کے میری ڈھارس بندھائوگی۔ زندگی کی جی ٹی روڈ پر سفر کرتے آٹھ کوس مینار گزر چکے ہیں۔ اب اس کاررواں سرائے کا منتظر ہوں جہاں قیامت تک کی ایک رات بسر کرنی ہے کوس مینار کے بارشوں سے سیاہ ہو چکے پلستر پر ایک ایسی آہنی تختی کیلوں سے ٹھونکی گئی ہے جو مکمل طور پر زنگ آلود ہو چکی ہے۔ اس پر درج شدہ عبارت کے حروف بھی زنگار شدہ حالت میں پڑھے نہیں جاتے۔ یہ عمارت قانون تحفظ آثار قدیمہ مجربہ 1975ء کے تحت محفوظ کی گئی ہے جو شخص اس عمارت کو نقصان پہنچائے گا یا اس پر نام کنندہ کرے گا یا اس پر ناجائز قبضہ کرے گا اس کو موجب ایکٹ مذکورہ بالا سیکشن تین سال قید بامشقت جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔ اس عمارت کی حدود میں۔ بلا اجازت کسی قسم کی تعمیر کرنا خلاف قانون ہے بموجب ایکٹ۔ بالا سیکشن۔…‘‘ جیسے کوس مینار کھڑا رہے اور زمانے گزر گئے ہیں۔ ایسے ہم بھی آئے اور زمانے کی مانند گزر جائیں گے۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ