ویسے تو اس فانی حیات کے کسی بھی عمل یا منصوبے کے بارے میں پیش گوئی نہیں کی جا سکتی کہ اس کا نتیجہ کس صورت برآمد ہو گا۔ ناکامی کا سامنا ہو گا یا کامیابی آپ کے قدم نہیں چہرہ چومے گی لیکن سب سے زیادہ ناقابل پیشین گوئی ادب اور میڈیا کے حوالے سے کی جانے والی کاوشیں ہوا کرتی ہیں۔ کبھی تو ’’ڈھپل‘‘ میں لکھی جانے والی، بغیر کسی منصوبے اور سوچ سے بے پروائی سے لکھی جانے والی تحریر لوگوں کو مسخر کر دیتی ہے اور کبھی برسوں کی ریاضت سے جنم والی کوئی تخلیق نامرادی کے اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے۔ میڈیا میں بھی نصیب کے یہی کرشمے حکومت کرتے ہیں۔ کبھی تو کوئی بوگس سا روا روی میں لکھا جانے والا ڈرامہ ہٹ ہو جاتا ہے اور کبھی جسے آپ شاہکار جانتے ہیں وہ کھیل فیل ہو جاتا ہے۔
ٹیلی ویژن پر تاریخ میں پہلی بار جب صبح کی نشریات کا آغاز ہوا اور مجھے میزبانی کے لیے منتخب کیا گیا تو میں نے اس کے پروگراموں کا مکمل شیڈیول، خالد محمود زیدی اور خواجہ نثار حسین کے مشوروں سے مرتب کیا۔ اس دوران خیال آیا کہ نشریات کے اختتام پر صرف یہ کہہ دینا کہ اب مجھے اجازت دیجیے کل صبح انشاء اللہ پھر ملاقات ہو گی، ایک پھسپھسا سا اختتام ہے چنانچہ میں نے طے کیا کہ ہر سویر پروگرام کے آخر میں مَِیں اپنی گھڑی ہوئی ایک ’’چھوٹی سی بات‘‘ بیان کر کے رخصت کی اجازت چاہوں گا۔۔۔ یہ بات کسی شعر، کسی روایت، کسی حکایت سے مستعار شدہ بھی ہو سکتی ہے اور اکثر لفظوں کے فریب اور بظاہر دانائی کا شاخسانہ بھی ہو سکتی ہے۔ ’’چھوٹی سی بات‘‘ حیرت انگیز طور پر عوام الناس کی پسندیدگی کے لائق ٹھہری۔۔۔ بلکہ کچھ لوگ جو پورے دو گھنٹے روزانہ ٹیلی ویژن پر میری ’’بُوتھی‘‘ برداشت نہیں کر سکتے تھے، اپنا ٹیلی ویژن تب آن کرتے جب پروگرام اختتام کو پہنچ رہا ہوتا اور وہ اس روز کی ’’چھوٹی سی بات‘‘ سن کر ٹیلی ویژن آف کر دیتے۔ میں کسی محفل میں جاتا تو لوگ مجھ سے کسی چھوٹی سی بات کی فرمائش کرتے۔۔۔ کہیں بھی ، کسی کتاب یا آٹو گراف بک پر کچھ لکھنا ہوتا تو یہی درخواست ہوتی کہ ایک چھوٹی سی بات تو لکھ دیجیے۔ اُنہی زمانوں میں مجھ پر ’’اقوال زریں‘‘ کا بھید کھلا۔۔۔ آپ آگاہ ہیں کہ اکثر اخباروں، جرائد اور ٹیلی ویژن پر مقدس ہستیوں سے موسوم ’’اقوال زریں‘‘ درج ہوتے ہیں اور میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ کیا یہ ہستیاں دن رات اور کچھ نہ کرتی تھیں
صرف اقوال زریں فرمایا کرتی تھیں کہ ایسے اقوال اتنی کثریت سے منقول ہوتے تھے۔ تب میں نے متعدد بار کسی مقدس ہستی سے موسوم ’’اقوال زریں‘‘ میں اپنی ’’چھوٹی سی باتوں‘‘ کو درج پایا۔۔۔ میں کیسے احتجاج کر سکتا تھا کہ حضور۔۔۔ یہ تو اس فقیر، حقیر، بندۂ بے توقیر نے یونہی لفظوں کا کھیل کھیلا۔ چھوٹی سی بات تخلیق کی جسے آپ نے کہاں منسوب کر دیا۔
پچھلے دنوں مجھ سے ایک نوجوان نے رابطہ کیا۔۔۔ میری نانی جان نے مرتے ہوئے وصیت کی تھی کہ آپ نے میری دو کتابیں ’’غار حرا میں ایک رات‘‘ اور ’’منہ وَل کعبے شریف‘‘ اُن تک پہنچانی ہیں اور میرا سلام کہنا ہے۔ انہوں نے آخری ایام میں خواہش کی تھی کہ انہیں اللہ تعالیٰ اتنی مہلت عطا کر دے کہ وہ ان کتابوں کو ایک مرتبہ پھر سے پڑھ سکیں اور وہ درجنوں بار اُنہیں پڑھ چکی تھیں۔ مجھ تک وہ کتابیں پہنچیں اور ہر سطر پنسل زدہ تھی۔ ایک ایک حرف پر ’’ماشاء اللہ، سبحان اللہ‘‘ درج تھا۔ اب اس سے بڑھ کر عزت افزائی کونسی تصور میں آئے گی۔ ایک بے توقیر شخص کی اس سے زیادہ اور کیا توقیر ہو گی۔ اس دوران راولپنڈی سے محترمہ نسرین اشرف خواجہ کا پیام آگیا۔۔۔ وہ نہایت عمر رسیدہ ہو چکی ہیں۔ ایک کرنل بیٹے کی پر فخر ماں جی ہیں، کچھ پگلی سی لگتی ہیں، انہوں نے صبح کی نشریات کے اختتام پر کہی جانے والی سب چھوٹی سی باتیں اپنی ڈائری میں محفوظ کر رکھی تھیں۔ میں نے اُن سے گزارش کی کہ وہ ان کی ایک نقل مجھے بھیج دیں کہ میرے پاس اُن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ انہوں نے کمال مہربانی کی اپنے ہاتھ سے نقل کر کے مجھے چھوٹی سی باتوں کا ایک پلندہ بھیج دیا۔ میں ان میں سے اکثر کو بھول چکا تھا۔ محترمہ نسرین اشرف خواجہ کی کاوش سے وہ باتیں محفوظ ہو گئیں۔ یہ قطعی طور پر اقوال زریں نہیں ہیں۔۔۔ لیکن ان میں کہیں نہ کہیں کوئی دانائی ہے جو میری نہیں ہے۔ میر تقی میر، غالب، بلھے شاہ، شاہ حسین، بھٹائی یا مولانا روم سے مستعار لی گئی ہے۔۔۔ میرا اپنا کچھ نہیں ہے۔ جو کچھ ہے مانگا تانگا ہوا ہے۔ فقیر کے کشکول میں ان سخی داتاؤں کا ڈالا ہوا ہے۔
’’جھوٹ کو گھر سے نکلنے کا موقع نہ دیجیے کیونکہ سچ ابھی گھر سے نہیں نکلتا اور جھوٹ پوری دنیا میں چکر لگا کر آ جاتا ہے‘‘۔
’’چھوٹی سی بات میں چاہے کتنی بڑی بات کہہ دی جائے، وہ پھر بھی چھوٹی سی بات ہی رہتی ہے‘‘۔
’’گہرے سمندر اور گہرے انسان کا چہرہ سطح پر ہمیشہ پر سکون ہوتے ہیں‘‘۔
’’بادل برسے نہ برسے، اسے دیکھ کر ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔۔۔ اولاد خدمت کرے نہ کرے اسے دیکھ کر بھی دل میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے‘‘۔
’’ہمارے چہرے نقاب ہیں، ہم اُن کے پیچھے اپنے دُکھ درد روپوش کرتے ہیں‘‘۔
’’بیوقوف بھی آپ کے استاد ہو سکتے ہیں، جو وہ کرتے ہیں آپ نہ کیجیے‘‘۔
’’جیسے بارش گرد آلود پتے کو ہرا بھرا کر دیتی ہے ایسے آنسو دل پر جمے غم کے غبار کو دھو ڈالتے ہیں‘‘۔
’’آج عمل کا بیج بو دیجیے، کل ارادے کا بوٹا نکلے گا، پرسوں خواہش کا پھل آجائے گا‘‘۔
’’جب کوئی ادیب آپ سے کہے کہ بے شک مجھ پر کڑی تنقید کرو، مطلب یہ ہوتا ہے خدا کے واسطے میری تعریف کرو‘‘۔ (جاری ہے)
فیس بک کمینٹ