موت اور آپ کے درمیان ایک فاصلہ ہو تو وہ رومانوی لگتی ہے اس کا دکھ محسوس تو ہوتا ہے پر سینے میں ایک گھاؤ نہیں لگاتا اور یہ فاصلے عمرکے ہوتے ہیں برسوں کے ہوتے ہیں جب آپ جوان ہوتے ہیں اور مرنے والا آپ سے بہت دور بڑھا پے کی منزلوں پر ہوتا ہے تو آپ اس کی موت کو اپنے ساتھ متعلق نہیں کرتے کہ یہ اصولی طور پر آپ کے مرنے کے دن نہیں ہوتے لیکن پھر آپ برسوں کے فاصلے طے کرتے اس مقام پر جا پہنچتے ہیں جس کے آگے جینے کے بہت سے دن نہیں ہوتے جیسے بابا فرید نے کہا تھا کہ اے فرید اب نیند سے بیدار ہو جاؤ کہ تمہاری داڑھی سفید ہو چکی ہے اور تمہارا پیچھا یعنی گزشتہ حیات بہت دور ہو گئی ہے اور تمہارا آگا یعنی جو کچھ آگے ہے وہ نزدیک آگیا ہے تو ان زمانوں میں موت بہت اثر کرتی ہے کہ آپ بھی اس کے اتنے نزدیک آ چکے ہوتے ہیں کہ اگلی باری آپ کی بھی ہوسکتی ہے یوں جب کبھی کسی عزیز یا جان پہچان والے کی موت کی خبر آتی ہے تو وہ ایک یاد دہانی کے طور پر آتی ہے اور آپ نہ صرف اس شخص کے بچھڑنے پر ملال میں چلے جاتے ہیں بلکہ اپنے خاک ہو جانے کے ڈر سے بھی خوفزدہ ہو جاتے ہیں تب یہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ بابا لوگ کسی کے مرنے پرا تنا واویلا کیوں کرتے ہیں اور جو بھی مرتا ہے اس کے چلے جانے کا اتنا چرچا کیوں کرتے ہیں اس کے ساتھ اپنی رفاقت کی کہانیاں کیوں سنانے بیٹھ جاتے ہیں۔
اور اب میرے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے میری عمر کے اور مجھ سے چار پانچ سال بڑے لوگ اس دہلیز کی چوکھٹ کے قریب ہیں جس کے پار فضا کی تاریکی ہے اور چونکہ اکثر مرنے والے آپ کے ہم عصر ہوتے ہیں اس لیے آپ ان کو جانتے ہیں ان کے ساتھ پچھلی زندگی کی کچھ یادیں وابستہ ہوتی ہیں اس لیے ان زمانوں میں موت آپ پر اثر کرتی ہے اور آپ چلے جانے والوں کے لیے دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ پر ملال ہوتے ہیں اکثر کرشن چندر، بیدی، ساحر، جگر، فراق یا منٹو کی موت ہوتی تھی تو وہ بہت دور ہوتی تھی یہ ہمارے ہم عمر نہ تھے اور نہ ہی ان سے کوئی تفصیلی میل ملاقات یا ذاتی جان پہچان تھی لیکن جب کرنل محمد خان، شفیق الرحمان، اشفاق احمد، فیض صاحب، شوکت صدیقی، منیر نیازی، قتیل شفائی، خاطر غزنوی، فراز یا احمد ندیم قاسمی رخصت ہوتے ہیں تو ان سے آپ کی قربت اور پہچان رہی ہوتی ہے ان سے یادیں وابستہ ہوتی ہیں تو ان کے مرنے کا دکھ سہا نہیں جاتا دل میں ایسے گھاؤ ڈالتا ہے جو مندمل نہیں ہوتا کہ مندمل ہونے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے جو آپ کے پاس نہیں ہوتا اور آپ ہر موت سے اپنی موت کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اقبال بانو کی موت بھی میرے دل کے بہت قریب ہوئی بلکہ میرے گھر سے کچھ دور گارڈن ٹاؤن میں ہوئی ہم مہدی حسن کو دیکھ رہے تھے اور اقبال بانو نے موقع غنیمت جانا کہ کوئی بھی میری طرف نہیں دیکھ رہا تو چپکے سے غائب ہو جاؤں چنانچہ وہ بغیر کسی اطلاع کے شور شرابے کے بغیر خاموشی سے مر گئیں اور اس لیے بہت دھچکا محسوس ہوا کہ بانو یہ تو آپ نے بہت زیادتی کی ٹھیک ہے چلی جاتیں لیکن ہمیں ذہنی طور پر تیار تو ہونے دیتیں۔ ہم اخباروں میں آپ کی صحت کے بلیٹن پڑھتے۔ وی آئی پی حضرات آپ کے ساتھ آخری تصویریں اتروانے کے لیے ہسپتال پہنچتے اور آپ کو اس ملک کا اثاثہ قرار دے کر کوئی چیک پیش کرتے جو بعد میں کیش نہ ہوتا کبھی آپ کی طبیعت سنبھل جاتی اور بگڑ جاتی اور پھر بے شک خبر آجاتی ہم ذہنی طور پر تیار تو ہولیتے۔
دشت تنہائی میں یوں اتنی خاموشی سے تو نہیں اتر جاتے کیسے وہ کمال کے دن تھے ”قاتل ‘‘ اور ”گمنام ایسی بلند درجہ فلموں کے دن اور ان میں نغمہ سرا اقبال بانو کے گیت چھم چھم کرتے تھے کوچہ و بازار میں پائل کے گیت چھم چھم کرتے تھے اور الفت کی نئی منزل کو چلا تو ڈال کے باہیں باہوں میں، دل توڑنے والے دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں جیسے پرسوز الاپ ہر دل کو چھوتے تھے اور پھر بہت بعد میں کشور ناہید کے گھر ایک ادبی محفل میں جب اقبال بانو داخل ہوئیں تو میری آنکھیں بے اختیار ان کے پاؤں کی جانب گئیں کہ مجھے وہ پائل دکھائی دے جائے لیکن وہ پائل تو ان کے گلے میں چھن چھن کرتی تھی
کشور کو ان زمانوں میں شہر کے نابغہ روزگار ادیبوں، تصوروں اور گلوکاروں کو اپنے گھر میں جمع کرنے کا ملکہ حاصل تھا اقبال بانو ان محفلوں میں نہایت اہتمام سے شریک ہوتیں کہ ان کے ادبی ذوق میں کچھ کلام نہ تھا ان سے جب کبھی فرمائش کی انہوں نے دیگر گانے والوں کی مانند نہ تو نخرے کیے اور نہ کبھی گلا خراب ہونے کا بہانہ کیا صرف ایک مسکراہٹ اور گردن جھکا کر ایک آداب عرض اور وہ نہایت سادگی سے غزل سرا ہو جاتیں کھانے کے بعد جب اکثر مہمان رخصت ہو جاتے تو ہم ان سے ٹھہر جانے کی درخواست کرتے اور پھر جی بھر کے انہیں سنتے اگر آپ کو غزل کے کسی ایک مصرع کی ادائیگی نے مار ڈالا ہے تو وہ آپ کی فرمائش پر اسے بار بار انوکھے رنگوں میں ادا کرتی چلی جاتیں اور یاد رہے کہ بیشتر گلوکار یوں صرف دوستوں کی فرمائش پر نہیں گاتے موسیقی کا بندوبست نہ ہوتا تو بھی ان کی آواز کا جادو دشت تنہائی میں سرچڑھ کر بولتا ان دنوں کے بعد پھر ٹیلی ویژن پر اکثر ملاقات ہو جاتی جہاں میں موسیقی کے پروگراموں کی میزبانی کیا کرتا تھا۔
جن دنوں میں صبح کی نشریات کی میزبانی کے سلسلے میں عارضی طور پر اسلام آباد منتقل ہو چکا تھا تو ایک ویک اینڈپرواپس لاہور آ رہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ اقبال بانو بھی اس فلائٹ پر ہیں وہ میرے برابر کی نشست پر آ بیٹھیں اور تب انہوں نے ادب کے بارے میں گفتگو کی اور نہ ہی گلوکاری کا تذکرہ چھیڑا بلکہ ایک گھریلو عورت کی مانند اپنے گھر کے معاملات اور بال بچوں کے بارے میں باتیں کرتی رہیں ایئرپورٹ پر مجھے لینے کے لیے میرے بیٹے نے آنا تھا اور اسے کالج میں کچھ تاخیر ہو گئی تو انہوں نے بصد اصرار مجھے اپنی کار میں بٹھا لیا اور کہنے لگیں آپ پہلے میرے ہاں چلیں گے پھر میرا ڈرائیور آپ کو چھوڑ آئے گا انہوں نے مجھے اپنے بچوں سے ملایا اور خاطر مدارت میں کچھ کسر نہ چھوڑی میں ان کی گھریلو شفقت اور محبت کو آج تک نہیں بھلا پایا۔
ان سے آج تک کبھی کچھ شکایت نہیں ہوئی یہ پہلی شکایت ہے کہ وہ ہم سے نظر بچا کے نہایت خاموشی سے دشت تنہائی میں گم ہو گئیں البتہ ان کے گیتوں کی چھم چھم اس دشت تنہائی میں جو کہ مرگ ہے اس کے سناٹے میں اب بھی گونجتی سناتی دیتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔
2009
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )