میں اپنی تحریروں میں اقرار کرتا رہتا ہوں کہ میں زندگی بھر نہ کبھی مکمل گاؤں کا ہوا اور نہ کبھی پورا شہری ہوا، بس درمیانی کیفیت میں مبتلا رہا۔ جب ایک برس نارمل سکول گکھڑ منڈی میں پہاڑے یاد کرتا رہا تو میرے بہتر لباس کی وجہ سے میری شامت آتی رہتی۔ امی مجھے ایک بچہ اچکن پہناتیں جیب میں رومال اڑستیں۔ استری شدہ شلوار قمیض اور بوٹ لشکتے ہوئے پالش شدہ اور کبھی کبھار ڈیکوریشن کے لیے ابا جی کی گھڑی فیور لوبا بھی کلائی پر باندھ دیتیں البتہ اسے ایک رومال سے ڈھانک دیتیں تاکہ نظر نہ لگ جائے۔ ادھر تیسری جماعت میں بیشتر طالب علم بس ابتدائی تقریباً ستر پوش لباس یعنی لمبی قمیض یا جھگے میں ملبوس ہوتے، بیشتر بچے جھگے کے نیچے کچھ بھی زیب تن کرنے کا تردد نہ کرتے۔ البتہ چند ایک کشمیری لڑکے اور کچھ شیخوں کے بچے کچھ نہ کچھ پہن لیتے تو اس ویل ڈریسڈ کمیونٹی میں میں ایک عجوبہ تھا۔ چنانچہ چھٹی کے بعد یہ حضرات نعرے لگاتے ’’سونے کی چڑیا، سونے کی چڑیا۔ مجھے یاد تو نہیں بس ایک گمان سا ہے کہ برس بھی تو ستر بیت گئے کہ میری شان میں کچھ نثری شاعری بھی کی جاتی تھی کہ سونے کی چڑیا آئی جے۔ گھڑیاں پہن کے آئی جے۔ بوٹاں پالش کر آئی جے، کنگھیاں کر کے گھڑیاں پا کے آئی جے۔ ان میں سے کچھ بچے گاؤں کے جوہڑ تک میرا پیچھا کرتے نعرے لگاتے چلے آتے اور میں روتا ہوا گھر واپس آتا۔
پھر ایک روز نانی جان طیش میں آ گئیں اور انہوں نے سکول جا کر بچوں کو تو نہیں، ماسٹر حضرات کو خوب لتاڑا کہ اگر آئندہ کسی نے میرے پیارے شہری نواسے کو تنگ کیا تو یاد رکھیے ہمارے زمیندار گھر سے آپ کو جو گندم اور گڑ وغیرہ بھیجا جاتا ہے اس کی سپلائی منقطع ہو جائے گی۔ نیز یہ کہ میں ذاتی طور پر اپنے بھائی جہان خان کی ڈانگ لے کر آؤں گی اور اپنے بچے کو چھیڑنے والوں کو پھینٹی لگاؤں گی۔ اس دھمکی کا خاطر خواہ اثر ہوا کہ نانی جان ماشاء اللہ ایک نمبردارنی ہوا کرتی تھیں اور ان کے قول اور فعل اور دھمکیوں میں کچھ تضاد نہ تھا۔
نارمل سکول گکھڑ منڈی میں ڈیڑھ دو برس گزارنے کے بعد جب میں لاہور کے رنگ محل مشن ہائی سکول کی جماعت پنجم میں واپس آیا تو یہاں بھی چین نہ ملا۔ میرا لب و لہجہ قدرے پینڈو ہو چکا تھا۔ چال ڈھال میں بھی شہر والی نزاکت نہیں رہی تھی اور اس پر مستزاد یہ کہ روزانہ بال سرسوں کے تیل سے چوپڑ کے آتا تھا۔ چائے کی بجائے لسی پی کے آتا تھا چنانچہ چھٹی کے بعد اندرون شہر کے تیز طرار بچے اور میں ایک بدھو سا بچہ ہوا کرتا تھا وہ نعرے لگاتے ’’ہائے پُت پینڈو۔ ہائے پت پینڈو” اور میں یہاں بھی روتا ہوا گھر واپس آتا اور یہ سلسلہ تب منقطع ہوا جب میں نے یہ نعرے لگانے والے بچوں کے سرغنہ کو جپھا مار کر زمین پر گرا لیا اور اسے کچھ زدوکوب کیا کہ میں اگرچہ ایک بدھو بچہ تھا لیکن دودھ مکھن اور دیسی گھی کے پراٹھوں سے پلا ہوا ایک جاٹ بچہ تھا۔
تقریباً چالیس برس بعد جب کہ میں میڈیا کے حوالے سے کچھ نامور سا ہو چکا تھا میرے کچھ چیک ہیڈ کوارٹر ریلیز نہیں کر رہا تھا تو میں پی ٹی وی کے ہیڈ کوارٹر میں ڈائریکٹر فنانس چودھری نذیر کے کمرے میں دندناتا ہوا جا پہنچا تو وہ کرسی سے اٹھ کر بغلگیر ہو گیا۔ کہنے لگا مجھے نہیں پہچانتے ابھی تک پُت پینڈو ہو۔ میں وہی نذیر ہوں جو تمہیں چھیڑتا تھا اور تم مجھ پر حملہ آور ہو گئے تھے۔ اگر نذیر چودھری ابھی تک کہیں موجود ہے تو براہ کرم مجھ سے رابطہ کرے اور ایک مرتبہ پھر ’’ہائے پت پینڈو” کا نعرہ لگا دے۔
غرض کہ میں زندگی بھر سونے کی چڑیا اور پت پینڈو کے درمیان میں کیسا بھٹکتا رہا۔ نہ میں مکمل طور پر شہر کا ہوا، سونے کا ہوا اور نہ ہی گاؤں کے جوہڑ میں ڈبکیاں لگانے والا ہوا۔ یہ جو محبتیں تھیں اور یہ جو دکھ تھے اور یہ جو رنج اور ملال تھے زندگی کے ان سب میں کبھی شہر کی نزاکتیں اور نفاستیں در آتیں۔ بہترین اخلاقیات اور ذوق جمال کے مظاہرے ہوتے اور کبھی مجھ میں گاؤں کا کھردرا پن اور بے دریغ سچ کہہ جانے کا جرم سرزد ہو جاتا۔ ادب میں بھی میرا برا حال ہوا یعنی بات تو سچ ہے لیکن بات ہے رسوائی کی۔ مجھے ہمیشہ مغلوب کر دیا گیا۔
جیسے حضرت جنید بغدادی سے پوچھا گیا کہ حضرت آپ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے منصور حلاج کے قتل کا فتویٰ دیا تو یہ فرمائیے کہ کیا اس کا دعویٰ جھوٹ تھا؟ جنید نے کہا نہیں۔ تو پوچھا گیا کہ کیا وہ سچ کہتا تھا تو جنید کہنے لگے’’کہتا تو وہ سچ تھا پر اسے سرعام کہنا نہیں چاہئے تھا” مجھے بھی وہ کچھ نہیں کہنا چاہیے تھا جو میں نے اپنے کالموں ، سفرناموں اور خاص طور پر ناولوں میں سرعام کہہ دیا۔ اسلام آباد میں میڈیا کے حوالے سے ایک بہت بلند درجے کی میٹنگ تھی جس میں میڈیا سے متعلق جتنے بھی سیکرٹری، وزیر اور فرعون وغیرہ تھے شامل تھے۔ مشاہد حسین سید، مجھے اس سے کچھ غرض نہیں کہ وہ ’’ق” کے کوئے یار سے نکلتے ہیں تو ’’ن” کے سرِ دار تک جا پہنچتے ہیں لیکن وہ مجھے اچھے لگتے ہیں۔ مجھ پر مہربان رہتے ہیں تو انہوں نے میڈیا کی اس ہائی لیول میٹنگ میں سب سے پہلے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ تارڑ صاحب آپ ایک مدت سے میڈیا سے منسلک ہیں بلکہ پی ٹی وی کے ستونوں میں سے ہیں تو آپ فرمائیے کہ آپ کے نزدیک میڈیا کا مطلب کیا ہے؟
تو میں نے کہا شاہ جی میڈیا کا مطلب ہے لوگوں کو بیوقوف بنانا جو ہم بناتے ہیں۔ ضیاء الحق آتا ہے تو ہم ’خودی کا سر نہاں لاالہ الااللہ، الاپنے لگتے ہیں بے نظیر صاحبہ کا ورود ہوتا ہے تو ’’ہم مائیں ہم بہنیں ہم بیٹیاں” وغیرہ کے گیت گانے لگتے ہیں۔ نواز شریف آتے ہیں تو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا گائیں۔ میٹنگ میں موجود جتنے بھی میڈیا زار تھے بیورو کریٹ اور اعلیٰ سرکاری حکام تھے ان کی تیوریاں چڑھ گئیں اور انہوں نے مجھے نہایت خونخوار آدم خور نظروں سے دیکھا۔ مشاہد حسین سید بھانپ گئے اور وہ جانتے تھے کہ میں وہ کہہ رہا ہوں جو سچ تو ہے پر کہنا نہیں چاہیے تو وہ مجھ سے مخاطب ہوئے کہ تارڑ صاحب آپ نے جو بیان دیا ہے کہ میڈیا کا مطلب ہے لوگوں کو بیوقوف بنانا تو کیا آپ اس کی کوئی دانشورانہ توجیہہ کر سکتے ہیں تب میں نے دقیانوس، افلاطون، سارتر، برٹرنیڈ رسل، کارل مارکس کی میڈیا تھیوری وغیرہ کے ایسے ایسے حوالے دیے کہ لوگ دنگ رہ گئے لیکن آخر میں، میں نے بصد ادب کہا کہ حضور میڈیا کا مطلب یہی ہے کہ لوگوں کو بیوقوف بنانا۔
آج آپ ملاحظہ کر لیجیے کہ ہمارے صحافی اور ٹیلی ویژن کے اینکر کیسے لوگوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ لاکھوں میں کہاں کروڑوں میں کھیل رہے ہیں لفافوں میں کھیل رہے ہیں۔ اپنے فارم ہاؤسوں میں کھیل رہے ہیں سب تو ہرگز نہیں ان میں سے اکثر اپنے معمولی خاندانی پس منظر اور غربت کا انتقام پاکستان کے عوام کو بیوقوف بنا کر لے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک دو ایسے اینکر ہیں کہ بقول عادل اگر ان کے چہروں پر سونے کا لیپ کر دو تو بھی ان کے ماضی کی غربت پوشیدہ نہیں ہوتی۔ میں بھی خواب دیکھتا ہوں کہ کبھی میں کسی سویر جاگوں تو میرے پورچ میں ایک نئی نویلی البیلی لینڈ کروزر کھڑی ہو کسی فارم ہاؤس کی ملکیت کا اشٹام پڑا ہو۔ خواہش شدید ہے کہ مجھے بھی کوئی خرید لے، پر ایک ’’پُت پینڈو” کا کوئی خریدار نہیں۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ