اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی بہشت کی قربت میں زندگی کرتے ہیں اور آپ کو اس کی موجودگی کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ یوں مجھے بھی پتوکی کی خبر ہی نہ تھی کہ وہاں کم از کم پاکستان بھر میں پودوں، درختوں، پھولوں، جھاڑیوں، شجروں کی ہریاول ہیں۔ ہریاول کی ایک ایسی بہشت سرسبز ہے جس کا آخری کنارا دکھائی ہی نہیں دیتا۔ سڑک کے دونوں کناروں پر میلوں تک نرسریوں اور گل بوٹوں کی قطاریں ہیں۔ پتوکی میں گلاب در گلاب تاحد نظر کھیت ہیں۔ پھولوں کے انبار ہیں اور دنیا کا کوئی پھول یا پودا ایسا نہیں ہے جو پتوکی میں کاشت نہ کیا جاتا ہو اورکاشت کرنے والے، نرسریوں کو سجانے والے لوگ ایسے ہیں کہ اگر اس برس چین، تھائی لینڈ یا ہالینڈ وغیرہ سے درآمد شدہ کوئی شجر یا پھولدار جھاڑی بصد شوق پانچ ہزار روپے میں خریدتے ہیں تو اگلے برس پتوکی میں تیار کردہ وہی شجر یا پھولداری جھاڑی ایک ہزار میں بکثرت دستیاب ہوںگی۔ پتوکی کے کاشت کاروں نے جانے کیسے موسموں کو اپنا مرضی کے مطابق ڈھال لیا ہے اور وہ دنیا کا ہر پودہ، ہردرخت اپنے ہاں تیار کرلیتے ہیں۔ مثلاً لاہور کی نرسریوں میں صد رنگ گلاب کے پورے نہایت کم قیمت پر دستیاب ہیں تو یہ گلاب کہاں سے آئے۔ ہندوستانی ڈہلیا کے پودے جن کے پھول اتنے بڑے ہیں کہ مجھے سرینگر میں واقع ابا جی کے سیڈ فارم کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ جربیرہ اور پٹونیا کہاں سے آئے۔ پتوکی سے۔ یہ گلابوں کا شہر ہے۔ حیرت انگیر ہریاول کے گل بوٹوں کا شہر ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایف سی کالج کے شعبہ اردو کے انچارج اور میرے دوست ڈاکٹر آغا سہیل چونکہ اردو والے تھے اس لیے پتوکی کو ہمیشہ بروزن پٹوخی، پتو۔کی کہا کرتے تھے۔ یونہی یاد آ گیا کہ تب شنید ہے کہ آغا صاحب نے کلثوم نوازشریف کو پی ایچ ڈی کے مقالے کے معاملے میں کچھ مدد کی تھی۔ اور ہاں ہم لوگ اپنے وطن کے قدیم ناموں والوں قصوں اور شہروں سے بہت بدکتے ہیں۔ یہ پتوکی، کامونکی، مریدکے وغیرہ کیا ہیں۔ حضور یہ تاریخ ہیں، جانئے تو سہی کہ پتو، کاموں اور مرید کون لوگ تھے۔ یہ تو پتہ کیجئے کہ آخر یہ چوہڑ کونسا تھا جس کے نام پر چوہڑ کا نہ آباد ہوا اور آپ نے اسے فاروق آباد میں بدل دیا اور پھر کسی سلسلے میں اور کس نے ایک قدیم قصبے بھائی پھیرو کا نام شاید پھول نگر رکھ دیا۔ مجھے اس قصبے کے نام سے بہت محبت تھی کہ یہ دراصل پنجابی میں میرا ہی ایک نام تھا یعنی ایسا بھائی جو پھرتا ہی رہتا ہے، آوارہ گرد ہے، آپ کوئی اور نگر آباد کر کے اسے پھول نگر کا نام دے لیں، مجھ غریب کے نام پر پورے پاکستان میں ایک ہی قصبہ بھائی پھیرو تھا، اسے کیوں مجھ سے چھین لیا۔ ساہیوال کے راستے میں ہی واں رادھا رام کا اب تو ایک شہر پڑتا ہے۔ یہ ایک عجیب رومانوی، داستانوی نام ہے، کسی اور شہر کا ایسا نام تو نہ ہوگا۔ رادھا اور رام کا گاؤں، کیا ہی سحر انگیز نام ہے لیکن کسی نے خبر کی کہ اس شہر کا نام بھی بدل دیا گیا ہے۔ ہم لوگ، ہم پاکستانی آخر کیوں ایسے خبط میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ اپنے شہروں، قصبوں اور گلی محلوں کے‘ غیر مسلم نام بدلتے پھرتے ہیں۔ بھئی آپ تازہ بستیاں آباد کرلو، نئے شہر بسالو اور ان کے نام اپنی من مرضی سے رکھ لو۔ کیوں تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کر کے اسے مسخ کرتے ہو۔ ورنہ بہت سے مسائل درپیش ہوں گے، آپ تاریخ اور جغرافیے کو بدل نہیں سکتے۔ گودہا سائیں کے آباد کردہ ایک تالاب کے گرد بستی آباد کرنے والے سرگودھا کے نام کو کیسے تبدیل کرسکتے ہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے درویش ٹیک سنگھ کو فراموش کیسے کرسکتے ہیں جس نے صحرا میں مسافروں کے لیے ایک ٹوبہ، ایک تالاب بنایا، دور دور سے پانی بھر کے لایا۔ ہری پور، بے شک ایوب کے لواحقین اس کا نام بدلنے کا اہتمام کرلیں لیکن وہ ہری سنگھ نلوہ کا شہر ہی رہے گا۔ مانسہرہ پر غور کرلیجئے۔ یہ مان سنگھ کا شہر ہے اور لاہور کا نام کیا رکھیں گے کہ یہ راجہ رام چندر کے بیٹے لوہ نے آباد کیا تھا۔ اس کے دوسرے بیٹے کے نام پر بلھے شاہ کا شہر قصور ہے۔ اگر ایک شہر بے شک یونین جیک کے نقشے کے مطابق کسی لائل نے تعمیر کیا اور وہ لائل پور کہلایا تو اسے کیوں فیصل آباد کر دیا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ شہید شاہ فیصل قطعی طورپر اس شہر کے وجود سے بے خبر ہوں گے۔ تو یہ کیا ہے کہ منٹگمری کو بھی ساہیوال کردیا گیا۔ ہمارے شمال میں خاص طورپر وادی سوات میں بہت سے شہر بدھ مذہب کی ثقافتی قدیم تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہاں جتنے بھی قصبوں کے ساتھ ’’گرام‘‘ کالاحقہ ہے وہ سب بدھ عہد سے متعلق ہیں، یعنی بٹ گرام اودے گرام، بٹ گرام وغیرہ اور اسی طور پاکستان میں جن قصبوں اور شہروں کے ناموں کے ساتھ ’’کوٹ‘‘ کا لاحقہ ہے وہ سنسکرت زبان میں ایک ’’قلعہ‘‘ ہیں۔ یعنی سیال کوٹ، سیال کا قلعہ، انی کوٹ، کوٹ جوگیاں، کوٹ مراد اور چھوٹا قلعہ، کوٹلی لوہاراں وغیرہ۔ تو براہ کرم تاریخ اور جغرافیے کو مسخ نہ کیجئے۔ نئے قصبے اور نئے شہر آباد کیجئے اور ان کے نام بے شک اپنی من مرضی سے رکھ لیجئے۔ کم از کم واں رادھا رام کے نام کو جوں کا توں رکھئے۔ ہم بھری دوپہر میں ایک سلگتی ہوئی دھوپ میں بالآخر ہڑپہ جا پہنچے۔ کھنڈروں کے آغاز میں جو ایک شاندار عجائب گھر تھا اس میں داخل ہو گئے۔ وہاں نہ صرف طارق سلطان اور اسکا برادر خورد، ایک پہاڑوں کا پاگل شخص امان اللہ مجھے ملنے کے لیے چلے آئے تھے۔ اور تب مجھے یاد آیا کہ آج سے شاید چالیس برس پیشتر جب میں اپنے بال بچوں سمیت ہڑپہ کے کھنڈروں کو دیکھنے کے لیے آیا تھا توطارق سلطان اور اس کی اہلیہ غزالہ خصوصی طور پر مجھے ملنے کے لیے ساہیوال سے آئے تھے اور ہمارے لیے دوپہر کے کھانے کے بہت سے طعام لے کر آئے تھے۔ میری آمد کی خبر پا کر میوزیم اور کھنڈروں کے انچارج اور محکمہ خوراک کا ایک کلرک سائیکل سوار اور معنک شخص تھا۔ میری کوئی بھی تحریر اس کی شعری عظمت کے حوالوں کے بغیر مکمل نہیں۔ وہ میرے ناول ’’راکھ‘‘ کا آغاز ہو۔ ’’لاہور‘ کا حوالہ ہو کہ کوئی کچھ بھی کہے، کہے مجھے کیا بات جو میرے دل میں ہے میں اگر آج اپنی زبان پہ نہ لا سکا کل میرے بعد تیری منڈلی پہ جب آگ برسے گی۔ کون بولے گا! میں نے جب بھلے دنوں میں، جب پی ٹی وی پر دریائی گھوڑوں کاراج نہ ہوا تھا تب ایک انوکھے سوال جواب کرنے والے پروگرام کا آغاز کیا تھا۔ جس کا نام میں نے ’’کون بولے گا‘‘ رکھا تھا۔ میرے ایک خاصے مقبول ٹیلی ویژن سیریل کا نام ’’ہزاروں راستے‘‘ تھا۔ مجید امجد کی ایک نظم کا عنوان اور سیریل کا ٹائٹل سونگ بھی ترنم ناز کی گائی ہوئی، میاں شہریار کی ترتیب شدہ یہی نظم تھی۔ اسے کبھی یوٹیوب پر تلاش کر کے سنئے، مجید امجد کے موثر مصرعے آپ کو مار ڈالیں گے اور ہاں میرے ناول ’’دیس ہوئے پردیس‘‘ کا انتساب بھی مجید امجد کی ایک نظم سے مستعار شدہ ہے۔ مجید امجد ہی کیوں میری نثری سلطنت پر راج کرتا ہے اس کے لیے ایک الگ مضمون درکار ہے اور صرف میرے ادب میں ہی نہیں میری روزمرہ زندگی میں بھی مجید امجد ہمہ وقت موجود رہتا ہے، چاہے وہ نہر کنارے سفر کرتے ہوئے ’’توسیع شہر‘‘ ہو۔ ’’میونخ‘‘ ’’کوئٹے تک‘‘ ’’کون دیکھے گا‘‘ ہو۔ مثلاً کبھی کبھار سردیوں کی سویروں میں، جناح باغ میں سیر کے بعد رائل پارک میں بٹ صاحب کا حلوہ پوڑی ناشتہ کرنے کے بعد جب میں سویرے سویرے تقریباً ویران مال روڈ پر ڈرائیو کرتا گھر کی جانب لوٹتا ہوں تو سڑک پر کہیں دھوپ ہوتی ہے اور کہیں چھاؤں اورہمیشہ ہمیشہ مجید امجد اس منظر کو بیان کرنے لگتا ہے کہ تو نے ہم سفر دیکھا، صبح کے اجالے میں، راہ کا سہانا پن دائیں بائیں دو رویہ، شادماں درختوں کی، جھومتی قطاریں ہیں ہر قدم کے وقفے پر، دھوپ کی خلیجیں ہیں، چھاؤں کے جزیرے ہیں دور دور تک رستہ، دور دور تک دنیا، دور دور تک سب کچھ اک عجب سہانا پن، صبح کے اجالے ہیں میری کار دائیں بائیں دو رویہ درختوں کی قطاروں کے درمیان چلی جاتی ہے اور اس کے راستے میں دھوپ کی خلیجیں ہیں، چھائوں کے جزیرے ہیں۔ کاندھوں پر لپٹی اجرک کی شال ہوں۔ اور وہ قدامت کی مسافتیں طے کرتے آج بھی سندھیوں کے شانوں پر لپٹے ہوئے ہوں۔ اجرک، ایک عجب پہناوا ہے، ہزاروں برسوں میں نہ اس کے گل بوٹے بدلے اور نہ ہی اس کے رنگوں میں کچھ فرق آیا۔ (جاری ہے)
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ