پچھلے دو تین روز سے میں سہم گیا ہوں۔ جیسے میں ایک کبوتر ہوں اور ایک سیاہ بلی غراتی ہوئی میری جانب بڑھ رہی ہے اور میں سہم گیا ہوں۔ میرے اندر نامعلوم کے ایک خوف نے جڑیں پکڑلی ہیں۔ میری سرزمین کا خون پی جانے والی سیاہ چمگادڑیں میرے بدن میں پھڑپھڑاتی پھرتی ہیں۔ مجھے کچھ جلنے کی بو آ رہی ہے‘ جیسے گوشت جل رہا ہو اس کی ناگوار بو سارے میں پھیل جاتی ہے۔ میں اپنے آپ کو سونگھتا ہوں کہ کہیں یہ میرا اپنا ماس تو نہیں جو جل رہا ہے۔ کہیں گھر کے چراغ سے ہی یہ گھر تو نہیں جل رہا۔ میں زندگی بھر اتنا خوفزدہ نہیں ہوا‘ جتنا ان دنوں ہو چکا ہوں‘ مجھ سے ہمدردی کیجئے میں خود اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا آشیانہ نذر آتش کر رہا ہوں اور مجھے فضا میں کچھ جلنے کی بو کے علاوہ گیس کی بو بھی آ رہی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ موت کی سزا کے لیے امریکہ کی کچھ ریاستوں میں مجرم کو ایک گیس چیمبر میں کرسی سے باندھ کر زہریلی گیس چھوڑ دی جاتی ہے اور میں مجرم نہیں ہوں اور اس کے باوجود مجھے انہوں نے باندھ دیا ہے۔ شاہراہیں بلاک ‘راستے بند‘ ٹرینیں بند‘ سکول بند‘ بچے گھروں میں بند‘ انہوں نے مجھے باندھ کر میرے پاکستان میں زہر آلود گیس چھوڑ دی ہے۔ ہم ان زمانوں میں مال روڈ پر واقع لکشمی مینشن میں رہتے تھے۔ جب بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفی شروع کی گئی۔ راتوں رات پاکستان قومی اتحاد کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا گیا۔ ہمارے آخری منزل پر واقع 17 نمبر فلیٹ کی کھڑکیاں تقریباً ہال روڈ اور مال روڈ کے سنگم پر کھلتی تھیں اور ریگل چوک مرکزی میدان جنگ تھا اور عین ہمارے سامنے تھا۔ کرفیو نافذ ہو چکا ہے‘ ہال روڈ اور ریگل چوک ویرانی کے سناٹے میں بھائیں بھائیں کر رہے ہیں۔ کرفیو کی خلاف ورزی کرنے پر گولی مار دینے کا حکم دیا جا چکا ہے اور میں کھڑکی سے جھانک رہا ہوں۔ میکلوڈ روڈ چوک کی جانب سے اس ویرانی میں ایک ویگن آ رہی ہے۔ میری کھڑکی تلے کھڑی ہو جاتی ہے۔ ایک باریش شخص اترتا ہے‘ ویگن کا پچھلا دروازہ کھولتا ہے اور اشارہ کرتا ہے۔ ویگن میں سے نہایت معصوم سے ٹین ایج بچے‘ کسی مدرسے کے طالب علم باری باری باہر آتے ہیں اور وہ بہت ڈرے ہوئے ہیں۔ باریش شخص ہر بچے کو قومی اتحاد کے کاغذ کے جھنڈے تھما دیتا ہے جن پر غالباً کلمہ طیبہ درج ہے۔ وہ آٹھ کے قریب تھے۔ ان بچوں کو اتار کر وہ باریش شخص ویگن میں سوار ہو کر واپس چلا جاتا ہے اور وہ بچے ہدایات کے مطابق نہایت ڈری ڈری آوازوں میں نظام مصطفی زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے ریگل چوک کی جانب بڑھنے لگے‘ انہیں دھکیل دیا گیا تھا اور تب ایک فائر کی آواز خاموشی کے شیشے کو کرچی کرچی کر گئی اور ان میں سے ایک بچہ زمین پر گر گیا۔ باقی بچے روتے ہوئے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ یہ ان درجنوں مناظر میں سے ایک ہے جو میں اپنی کھڑکی میں بیٹھا دیکھتا رہتا تھا اور جب رفیق باجوہ صاحب جن کے نام سے آج کم ہی لوگ واقف ہیں کسی جلوس کو ریگل چوک کی جانب دھکیلتے تھے تو مسلح ادارے ان پر آنسو گیس کے گولوں کی بوچھاڑ کر دیتے تھے۔ گیس کے یہ سفید زہریلے بادل ایک دھند کی صورت میں ہمارے فلیٹ کے اندر سرایت کر جاتے۔ تمام دروازے بند رکھنے کے باوجود یہ گیس ہمارے گھر کو ایک گیس چیمبر بنا دیتی۔ ہم کپڑے بھگو کر اپنی آنکھوں پر رکھتے تاکہ گیس کے زہر کا اثر کچھ کم ہو۔ سارا دن بھوکے پیاسے کھانستے رہتے لیکن میرا دل مٹھی میں آتا تھا جب میں اپنی اکلوتی بیٹی عینی کو کھانستے دیکھتا تھا اور وہ ابھی شیر خوار تھی۔ ہاتھ بھر کی تھی‘ آنسو گیس اس کے ابھی تک کچے پھیپھڑوں میں سرایت کر کے اسے موت کی جانب لے جاتی لگتی تھی۔ میں اسے سینے سے لگا کر اٹھا کر کہاں لے جاتا کہ باہر کرفیو نافذ ہو چکا تھا۔ ’’موٹروے M2 پر پچھلے سولہ گھنٹے سے پھنسا ایک شخض میسیج دیتا ہے میں نے جڑانوالہ انٹرچینج پر ایک عورت کو بچے کی ڈلیوری کے دوران کہ وہ ہسپتال نہ پہنچ سکتی تھی‘ مرتے دیکھا اور کچھ دیر بعد وہ بچہ بھی مر گیا۔ قیامت کے دن میں ان ظالموں کے ظلم کی گواہی دوں گا۔ میری عینی تو گویا ایک معجزہ تھا کہ بچ گئی۔ جڑانوالہ انٹرچینج پر برسرعام پیدا ہونے والے اس بچے کے لیے کوئی معجزہ رونما نہ ہوا اور وہ مر گیا۔ بچے بھی ہمارے ہی مرتے ہیں‘ ان کے کیوں نہیں مرتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت سے کون انکار کرسکتا ہے یہاں تک کہ شنید ہے کہ شہبازشریف بھی ان کے اتنے گرویدہ تھے کہ انہیں کاندھوں پر بٹھا کر گورنمنٹ کالج کے اندر لے گئے تھے اور بھٹو کی سیاسی بصیرت سے بھی کون انکار کرسکتا ہے۔ نظام اسلام کے بہانے اس کے خلاف جو تحریک چلائی گئی تھی اور اس میں سیاسی تاریخ میں پہلی بار مذہبی مدرسوں کے نوخیز طالب علموں کو بطور چارا استعمال کیا گیا تھا تو بھٹو نے کہا تھا ’’یاد رکھئے یہ لوگ مدرسوں کے طالب علموں کو سڑکوں پر لے آتے ہیں تو یہ کبھی واپس نہیں جائیں گے۔ بوتل کا یہ جن باہر آ گیا ہے‘ بوتل میں کبھی واپس نہیں جائے گا۔‘‘ آپ کو وہ دن یاد ہوں گے جب طالبان کاراج اسلام آباد سے صرف چند کوس کے فاصلے پر تھا اور وہ سوات سے امڈ کر پاکستان کے گلے تک آنا چاہ رہا تھا تاکہ یہ گلا گھونٹ دے۔ تب پاکستانی فوج نے اس ملک کو بہت قربانیاں دے کر طالبان کے خون آلود پنجوں سے آزاد کروایا۔ فوج کے کردار کے بارے میں بہت بحث ہوسکتی ہے کہ یہ مسائل تصوف تو آپ ہی نے پرورش کئے تھے لیکن میں تو سب کچھ بھول گیا جب فوج نے سوات میں دہشت گردوں کے راج کو بھسم کر ڈالا۔ ان دنوں مجھے غیر سرکاری طور پر کسی نشریاتی ادارے کی جانب سے طالبان کے بعد کے سوات کا دورہ کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ میں نے ایک مقامی ادیب سے پوچھا کہ آخر اتنے لوگ طالبان میں کیسے شامل ہو گئے تو اس نے بڑے پتے کی بات کی۔ تارڑ صاحب…یہ سب دولت اور اقتدار کے کرشمے ہیں۔ ایک دہاڑی دار مزدور کو‘ ایک معمولی دکاندار کو‘ ایک جوتیاں گانٹھنے والے کو‘ ایک اینٹیں ڈھونے والے کو اگر طالبان کہتے ہیں کہ آ جائو‘ تمہیں پچاس ہزار ماہانہ تنخواہ ملے گی‘ ایک کلاشنکوف ملے گی‘ اکثر ایک لینڈ کروزر بھی ملے گی اور تمہیں اختیار ہو گا کہ کسی بھی آبادی میں داخل ہو کر وہاں کے مکینوں کو مذہب کے نام پر ڈرا دھمکا سکو اور اگر کوئی تمہارے آسمانی احکام سے روگردانی کرے تو اسے ہلاک بھی کرسکتے ہو۔ منگورہ کے چوک میں بجلی کے کھمبوں سے اس کی لاش لٹکا بھی سکتے ہو تو تارڑ صاحب‘ آپ ہی انصاف کریں کہ کیا ان میں سے کوئی ایک واپس جا کر ایک دہاڑی دار مزدور‘ ایک موچی‘ ایک دکاندار ہوسکتا ہے۔ انہیں واپس لے جانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور پاکستانی فوج نے وہی طریقہ استعمال کیا۔ چنانچہ یہ لوگ جنہوں نے اقتدار اور وحشی بے مہار طاقت کے مزے چکھ لیے ہیں کہاں واپس اپنی بوتل میں جاتے ہیں۔ میں نے اکثر اپنی تحریروں میں حلقہ ارباب ذوق کی اس میٹنگ کا حوالہ دیا ہے جس کی صدارت بابا ظہیر کاشمیری کر رہے تھے اور جب کسی مضمون کے حوالے سے بحث کا آغاز ہوا تو سرخوں نے ’’ایشیا سرخ ہے سرخ ہے‘‘ (جاری ) اور سبزوں نے ’’ایشیا سبز ہے سبز ہے‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگانے شروع کردیئے اور ظہیر کاشمیری نے گرج کر کہا تھا ’’اوئے بدبختو‘ پاکستان ایک گھوڑا ہے‘ تم بحث کر رہے ہو کہ اس پر کاٹھی کس رنگ کی ڈالی جائے‘ اوئے کم بختو‘ پہلے تو اس گھوڑے کی صحت کا خیال کرو۔ اسے کھلائو پلائو‘ اس کا دھیان کرو‘ پھر جونسی مرضی کاٹھی ڈال لینا‘ اگر یہ مر گیا تو پھر کاٹھی کس پر ڈالو گے بیوقوفو!‘‘ میں اگر ان دنوں سہم چکا ہوں تو شاید اس لیے کہ ہم پاکستان کے گھوڑے کو اپنے ہاتھوں سے شوٹ کر رہے ہیں۔ (جاری)
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ