اسلام أباد :پولیس نے صحافی مطیع اللہ جان کو گرفتار کر لیا۔ذرائع کے مطابق پولیس نے مطیع اللہ جان کو گرفتار کرکے تھانہ مارگلہ میں منتقل کر دیا ہے۔
مطیع اللہ جان کے خلاف مقدمہ درج کیے جانے کی اطلاعات ہیں تاہم مطیع اللہ جان کے خلاف ابھی تک کسی درج مقدمے کی نقل فراہم نہیں کی گئی۔کمیٹی ٹو پرٹیکٹ جرنلسٹ کی طرف سے مطیع اللہ جان کی گرفتاری کی مذمت کی گئی ہے۔
دریں اثنا مطیع اللہ کو مبینہ طور پر ’سادہ کپڑوں میں ملبوس نامعلوم افراد کی جانب سے اغوا‘ کیے جانے کے خلاف اُن کے بیٹے نے تھانہ جی نائن میں درخواست دائر کر دی ہےدرخواست میں اُن کے بیٹے کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ اُن کے والد کے اغوا کا واقعہ گذشتہ رات گیارہ بجے کے لگ بھگ اسلام آباد کے پمز ہسپتال کی پارکنگ میں پیش آیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ جس وقت مطیع اللہ جان کو ’اغوا‘ کیا گیا اس وقت ان کے ہمراہ نجی ٹی وی سے منسلک صحافی ثاقب بشیر بھی موجود تھے جنھیں بعدازاں اغواکاروں کی جانب سے چھوڑ دیا گیا۔ بیٹے نے بتایا کہ انھیں اپنے والد کے اغوا کی بابت صحافی ثاقب بشیر نے صبح چار بجے کے لگ بھگ بتایا۔
صحافی ثاقب بشیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ بدھ کی رات گیارہ بجے کے قریب پمز ہسپتال سے نکل کر پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف جا رہے تھے جب کچھ افراد وہاں پر آئے جنھوں نے ہم دونوں کے چہروں پر کپڑا ڈالا اور زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔‘
ثاقب بشیر نے دعویٰ کیا کہ ’دس منٹ کی مسافت کے بعد ہم دونوں کو ایک کمرے میں بیٹھایا گیا، لیکن کپڑا منہ سے نہیں اتارا گیا۔ اِن افراد نے مجھے (ثاقب) مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ساتھ کوئی معاملہ نہیں ہے، اس لیے ہم آپ کو کچھ نہیں کہتے۔‘
ثاقب بشیر نے مزید کہا کہ اغوا کرنے والے افراد نے انھیں تشدد کا نشانہ نہیں بنایا اور دو گھنٹے کے بعد آئی نائن کے قریب ایک ویران جگہ پر چھوڑ کر فرار ہو گئے۔
ثاقب کے مطابق وہ اور مطیع اللہ جان پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران مظاہرین کی مبینہ ہلاکتوں کی تصدیق کرنے کے لیے پمز گئے تھے۔ ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ ’جب ہم دونوں کو اغوا کرکے لے گئے، تو ہمیں ایک ہی کمرے میں بیٹھایا گیا اور ہم دونوں سے کوئی بھی سوال نہیں پوچھا گیا۔ اُن کے مطابق کمرے میں جو افراد موجود تھے وہ صرف ہم دونوں سے یہی پوچھتے رہے کہ چائے تو نہیں پینی؟ سردی تو نہیں لگ رہی؟ واش روم تو نہیں جانا؟‘
انھوں نے کہا کہ جب انھیں چھوڑنے کے لیے گاڑی کی طرف لے کر جا رہے تھے تو اس وقت کمرے میں موجود ایک شخص سے انھوں نے وقت پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس وقت رات کے ڈھائی بج چکے ہیں۔ ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ وہ اس واقعہ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر رہے ہیں جبکہ مطیع اللہ جان کی فیملی بھی اسی عدالت سے رجوع کر رہی ہے۔حکام کی جانب سے فی الحال اس واقعے پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا ہے۔خیال رہے کہ اس سے قبل مطیع اللہ جان کو جولائی 2020 میں بھی اغوا کیا گیا تھا تاہم انھیں 12 گھنٹوں کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔
ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (ایمنڈ) کی جانب سے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کی گرفتاری کی مذمت کی گئی ہے۔ایمنڈ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں صحافی مطیع اللہ جان پر عائد الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہےکہ یہ الزامات صحافیوں کے خلاف ایک نیا طریقہ واردات ہے۔
اپنے بیان میں ایمنڈ نے کہا کہ سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو ساتھی صحافی ثاقب بشیر کے ہمراہ پمز اسپتال سے حراست میں لیا گیا، ثاقب بشیر کو کچھ دیر بعد چھوڑ دیا گیا جبکہ مطیع اللہ جان کو مارگلہ پولیس اسٹیشن منتقل کر کے ایک مقدمے میں اُن کی گرفتاری ڈال دی گئی۔ایمنڈ کے مطابق ایف آئی آر کے متن میں سرکاری اسلحہ چھیننے، جان سے مارنے کی دھمکی دینے اور گاڑی کی ٹکر سے کانسٹیبل کو زخمی کرنے جیسے بھونڈے الزامات عائد کیے گئے جو پس پردہ مقاصد کی عکاسی کرتے ہیں۔
ایمنڈ نے کہا کہ پہلے صحافیوں پر سائبر کرائم اور دیگر نوعیت کے مقدمات قائم کیے گئے جنہیں عدالتوں نے جھوٹا قراردے کر نہ صرف خارج کیا بلکہ صحافیوں کے تحفظ کے اقدامات بھی کیے، جس کے بعد اب اس قسم کے مقدمات بنانا شروع کر دیے گئے ہیں۔ ایمنڈ نے کہا کہ مطیع اللہ جان کے علاوہ بھی متعدد صحافیوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لینے، اُن پر دباؤ ڈالنے اور دھمکیاں دینے کے کئی واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں، یہ تمام واقعات پاکستان میں آزادی اظہار رائے کی خراب صورتحال کو ظاہر کرتے ہیں۔
ایمنڈ کی جانب سے کہا گیا کہ قانون کا احترام سب پر لازم ہے اور کوئی اس سے بالا نہیں لیکن صحافیوں کے خلاف تواتر سے ہونے والے واقعات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ قانون کی آڑ میں غیر قانونی اقدامات کا مقصد صرف اور صرف عوام کو حق معلومات سے محروم کرنا اور اظہار رائے پر قدغن لگانا ہے۔
ایمنڈ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ صحافیوں کیخلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کرانے، صحافیوں پر دباؤ ڈالنے اور غیر قانونی حراست میں لینے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اور حکومت ایسے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔
فیس بک کمینٹ