ملتان یونین آف جرنلسٹس کی موجودہ صورتحال نہایت افسوس ناک اور قابل مذمت ہے. اس صورتحال کا ذمہ دار وہ آمرانہ، غیر جمہوری رویہ ہے جس کی بنیاد پر تنظیم دوحصوں میں بٹ گئی ہے . میری اس تنظیم کے ساتھ ایک طویل جذباتی وابستگی ہے کیونکہ یہ واحد تنظیم ہے جس کی قیادت نے ماضی میں صحافیوں کے حقوق. جمہوریت کی مظبوطی اور مارشل لا کے خلاف ایک بھرپور اورسچی جدوجہد کی صحافیوں نے کوڑے کھائے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ ہوسکتا ہے کسی کے پیش نظر واحد مقصد یہی ہو کہ ایم. یو. جے کا عہدیدار بننے کا مطلب مختلف تنظیموں کو کہہ کر دعوتیں اڑانا ہے پر میرے پیش نظر صرف اور صرف پی. ایف. یو. جے کی وہ تاریخ ساز جدوجہداور عظیم مقصد تھا جس کے حصول کے لیے صحافیوں نے آمریت کے خلاف جدوجہد کی تاریخ رقم کی اس لیے آج اگر وہ تنظیم دو دھڑوں میں تقسیم ہو جاے تو دکھ ہوگا. اس تحریر کا مقصد کسی کی دلازاری کرنا مقصود نہیں اور میں پیشگی معافی چاہونگا تمام دوستوں سے. اور نہ ہی یہ تحریر کسی گروپ کی نمائیندگی کرتی ہے۔حقائق یہ ہیں کہ ایم. یو. جے میں طویل عرصہ سے انتخابی عمل معطل تھا اور پی. ایف. یو. جے سے الحاق بھی ختم ہو چکا تھا. چار،پانچ سالقبل ایم. یو. جے کا آخری الیکشن ہوا تھا اس میں جناب روف مان صدر منتخب ہوے نئی منتخب باڈی نے آئین کے مطابق پہلا کام یہ کیا کہ ایک الیکشن کمیٹی منتخب کی جس کے چیئرمین مسیح اللہ صاحب اور راقم اور ایک اور ساتھی بطور ممبر منتخب ہوئے. یہ تین رکنی الیکشن کمیٹی باڈی کی منتخبہ تھی۔
سال 2016-2017 سے مقامی صحافی حضرات اور مرکز کا دباﺅ تھا کہ الیکشن کرائے جائئں تاکہ ایم. یو. جے کا الحاق ہوسکے پی. ایف. یو. جے سے. الیکشن کمیٹی نے باہمی مشاورت سے باڈی سے رابطہ کیا تاکہ الیکشن کا شیڈول دیا جایے مگر بدقسمتی سے الیکشن کمیٹی کے خلاف ایک بدنیتی پر مبنی مہم واٹس ایپ میں لانچ کی گئی حتی کہ گالیاں تک دی جاتی رہیں جس سے دوستوں میں فاصلے بڑھتے گئے. جس پر الیکشن کمیٹی لاتعلق ہو گئی اور مرکز کو بھی بتا دیا گیا. بہرحال مختصر یہ کہ مرکز کی مداخلت اور سینئر صحافیوں جناب مسیح اللہ خان اور جناب رشید ارشد سلیمی کی کاوشوں سے مرکز نے ایک تین رکنی کمیٹی ملتان بھیجی. جس نے معاملات کے حل میں اپنا کردار ادا کیا. پی. ایف. یو. جے کی مرکزی کمیٹی نے جناب مسیح اللہ کی سربراہی میں قائم الیکشن کمیٹی کو تین فرائض سونپے:الیکشن سترہ اگست 2017 کو منعقد ہونگے۔پی. ایف. یو جے کی الحاق فیس مرکز کو ارسال کرنا ہو گا . چونکہ اگست میں سال ختم ہورہا تھا اس لیے نئ منتخب باڈی تین ماہ کے لیے کام کرے گی اس دوران نئ منتخب باڈی ایک الیکشن کمیٹی اور سکروٹنی کمیٹی قائم کرے گی اور نئ ممبرشپ کرکے سکروٹنی کے بعد دسمبر 2017 تک مرکز کو نئی سکروٹنی شدہ فہرستیں بھیجنے کی پابند تھی . لیکن حسب روایت الیکشن نہ کرایے گئے۔اگست کے الیکشن کے نتیجے میں جناب رﺅف مان صدر اور جناب شہادت حسین جنرل سیکریٹری بنے جبکہ کابینہ اور مجلس عاملہ کے اکثریتی عہدے ان کے حریف گروپ نے جیت لیے الیکشن کمیٹی نے چارج نئی منتخب باڈی کے حوالے کیا اور تحلیل ہوگئی مگرہٹ دھرمی کے باعث 2018 میں نہ تو الیکشن کرائے گئے اور نہ ہی اس بارے کوئی پیش رفت کی گئی جس کی بنا پر منتخب باڈی کا وجود غیر آیئنی غیر قانونی ہو گیا. نئی باڈی نے منتخب ہونے کے بعد اجلاس بلانے سے احتراز کیا کیونکہ ان کو سترہ رکنی باڈی میں صرف سات ووٹوں حاصل تھے جبکہ اپوزیشن کو دس ووٹ۔ بہرحال ارکان کے بار بار اصرار کے باوجود جب اجلاس نہیں بلایا گیا تو اکثریتی ارکان کے دستخطوں سے ریکوزیشن کے ذریعے اجلاس منعقد ہوا جس نے اکثریت رائے سے جناب ظفراللہ خان کی سربراہی میں ایک الیکشن کمیٹی اور جناب رشید ارشد سلیمی کی سربراہی میں ایک سیکروٹنی کمیٹی قائم کی جس نے محنت کرکے ایم. یو. جے کے ارکان کی سیکروٹنی کی اور باقاعدہ ہر ادارے کے دفتر جاکر ایک شفاف سیکروٹنی کو ممکن بنایا اور سیکروٹنی شدہ لسٹیں دسمبر2017 کو ارسال کر دیں۔اس تمام عرصہ میں نہ تو ایم. یو. جے کا کوئی اجلاس بلایا گیا اور نہ ہی حزب اقتدار اور اپوزیشن کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کی بہتری کے لیے منتخب باڈی کی جانب سے کوئی حکمت عملی مرتب کی گئی. نتیحے کے طور پر ساتھیوں میں فاصلے بڑھتے گئے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دو الیکشن کمیٹیوں نے الگ الگ الیکشن شیڈول دے دیا ہے ایک الیکشن کمیٹی وہ ہے جو باڈی کے اکثریتی ارکان نے ایک سال قبل بنائئ تھی اور دوسری وہ جو کابینہ کے اقلیتی ارکان نے 2019 میں قائم کی ہے. میرا ایک واضع موقف ہے اگر 2019 والی الیکشن کمیٹی ہی بنانا تھی تو یہ کام مشاورت سے اور تمام ساتھیوں کو اعتماد میں لے کے قائم کر لی جاتی اور تنظیم دودھڑوں میں تقسیم نہ ہوتی. مگر ہٹ دھرمی نے تنظیم کو دو دھڑوں میں تقسیم کردیا. جو فہرست جاری کی گئی ہے وہ بھی خود ساختہ ہے کیونکہ سکروٹنی کمیٹی نے جو فہرست مرتب کی تھی یہ اس سے برعکس ہے. میری تمام ساتھیوں سے اپیل ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریںاور اس مسئلہ کو حل کریں وگرنہ تنظیم مستقل طور پر دو واضع دھڑوں میں بٹ جائے گی جس کا تمام تر کریڈٹ سابقہ باڈی کو جائے گا.