موٹر وے پر بنے باسی کھانوں کے خوبصورت مراکز بھی لاک ڈاؤن کا منہ چڑاتے تھے۔کھانا دیا جارہا تھا مگر ہال میں بیٹھنے پر پابندی تھی،گھاس کے خوبصورت لان میں چٹائی بچھا کر ہمیں پیٹ پوجا کی اجازت تھی اور یہ عمل درجنوں سیاحوں کے ساتھ جاری تھا۔آیت زہرا کو جھولے میسر آچُکے تھے اور یہی اس کی تفریح تھی اسے وادیوں اور کہساروں سے کچھ لینا دینا نہ تھا۔لاک ڈاؤن کا مقصد سمجھ نہ آیا کہ چٹائیوں پر بیٹھے لوگ ہال کے اندر کرسیوں پر بیٹھنے سے زیادہ قربت میں تھے مگر سرکار کی اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں اور ہم سیاسی بات کرکے سفرنامے کو آلودہ نہیں کرسکتے تھے۔
ہزارہ موٹر وے پر سفر ہمیں ہری پور ، حسن ابدال اور حویلیاں کی آلودگی پھانکنے سے بچا گیا اور ہم مانسہرہ کی وادی میں اتر گئے ،جی ہاں وہی وادی جو نظر انداز کی جاتی رہی کبھی شمال کا دروازہ نہ کہلائی،کبھی قیام گاہ نہ بنی حالانکہ یہ خوبصورت وادی تھی۔مانسہرہ سے اترے تو کوئی چیک پوسٹ نہ تھی کہ لاک ڈاؤن اور راستے بند ہونا صرف ایک خبر تھی جس کی حیثیت شام کے اخبار کی خبر جیسی تھی،حقیقت سے بالکل مختلف اور الٹ ،ہم کاغان سے گزرے تو الجنت جنرل سٹور پر شکریہ ادا کرنا ضروری تھا کہ وبا کے دنوں میں ہر خبر سے انہوں نے ہمیں آگاہ رکھا،جب گاڑیاں قطار اندر قطار گزرتی تھیں تو وہ فون کرتے تھے کہ چلے آؤ کہ گلشن کا کاروبار چل رہا ہے۔لاک ڈاؤن صرف خبروں میں ہے۔ناران جولائی اور اگست کے دنوں میں آلودگی اور کاروباری بے مہری سے بھرپور ہوتا تھا مگر اب کے برس خیمہ بستی نہ تھی اور ہوٹل بھی چند ہی کھلے تھے ۔ایک بڑی موبائل فون کمپنی نے برے دنوں میں ناران کو تنہا چھوڑ دیا تھا یہ الگ بات کہ یہ کمپنی اربوں روپے گزشتہ دس سالوں میں ناران کے سیاحوں سے کما چکی تھی،سات برس سے ناران سے منافع کمانے والے بنک اسلامی بھی بھاگ گئے تھے واحد اے ٹی ایم بھی اکھاڑ لی گئی تھی صرف ٹیلی نار موبائل نیٹ ورک ہمارے ساتھ ساتھ رہا۔ہوٹل ایڈن میں لیاقت بھائی نے یوں استقبال کیا جیسے ہم لاک ڈاؤن کھلنے کی خبر لائے ہوں۔صاف ستھرے کمرے اور نئی چادریں ،کمبل کبھی ناران میں ہمارا مقدر نہ بنے مگر اب شائد ہم وبا کے دنوں میں سیاحت پر نکلے تھے اور بالکل درست نکلے تھے۔لیاقت بھائی نے بتایا کہ ناران کو مری کے سرمایہ داروں نے آلودہ کیا اور سیاحوں سے جھگڑے کرکے ہمیں بدنام کرتے رہے ۔اب وہ نہیں ہیں تو ماحول اور مزاج درست ہیں۔
ناران میں لاک ڈاؤن کی اصلیت تب سامنے آئی جب پنجاب تکہ ہاوس اور مون ریسٹورنٹ پر سیاحوں نے مری کے مال روڈ کی یاد تازہ کردی۔ٹریفک گھنٹوں بلاک رہی۔وہ آبشاریں جو ہوٹل تعمیر کرنے کےلئے گم کردی گئیں اور زیر زمین نالے بنا کر دریا برد کردی گئیں ۔دریا کا شیشہ پانی بھی تعمیراتی منصوبوں نے گدلا کر دیا۔ان منصوبوں نے لوگوں کو تو ابھی تک مالی و سماجی راحت نہیں دی البتہ فطرت کو ضرور تباہ کر ڈالا ہے۔لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر سرکار کا ایک ڈرامہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا کہ بعداز دوپہر اسسٹنٹ کمشنر بالا کوٹ نواب سمیر نے ناران بازار میں چھاپہ مارا اور خبر جاری کردی کہ “درجنوں ہوٹلوں کو سیل کردیا اور سیاحوں کو ناران سے نکل جانے کا حکم دیا گیا” جھوٹ کی انتہا اس سرکاری ہینڈ آؤٹ سے جھلک رہی تھی کہ ہم وہاں سارے واقعہ کے عینی شاہد رہے۔اے سی صاحب کو اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ہوٹل مالکان نے احتجاج کیا اور ہر طرح کی ٹریفک کےلئے سڑک بند کردی انہوں نے سرکاری اداروں کے افسران کے داخلے پر بھی پابندی لگانے کا مطالبہ کردیا۔ہوٹل مالکان کی تنظیم کے صدر نے بتایا کہ سیاحوں کو نکال کر سرکاری افسران یہاں آکر چھٹیاں گزارتے ہیں،عیاشی کرتے ہیں۔چین سے آئے انجینئر ز بھی ات مچا دیتے ہیں،لاک ڈاؤن کی پالیسی صرف سیاحوں کےلئے ہی کیوں ہے؟
شام کے وقت بازار میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، اور یہ لاک ڈاؤن کی شام تھی۔ہمارے دیکھتے دیکھتے ہوٹلوں کے کرائے بھی دوگنا ہوتے گئے کیونکہ بے پناہ رش نے مایوس نارانیوں کو نہال کردیا۔نئی گاڑیوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھی۔دریائے کنہار کا شور گاڑیوں کے ہارنوں میں دب چکا تھا۔آیت اور حجاب آئس کریم کی تلاش میں اوپر پل تک گئیں اور ناکام لوٹ آئیں کیونکہ سٹالز پر بے پناہ رش تھا۔سمیع بھائی کراچی سے نکلنے والے تھے کہ اس جھوٹی خبر نے ان کے پاوں روک لئے ۔لاک ڈاؤن کا معیار بھی عجیب تھا کہ وہ خبر میڈیا پر چلائی جارہی تھی جو حقیت کے برعکس تھی۔ہم عینی شاہد نہ ہوتے تو اسے سچ سمجھتے۔
فیس بک کمینٹ