ملک بھر میں کتابوں کے میلے اس بات کی گواہی ہیں کہ لوگوں میں کتاب پڑھنے کا شوق نہ صرف موجود ہے بلکہ بڑھ رہا ہے۔ گوادر جیسے دور افتادہ شہر میں بھی کتابوں کا میلہ ہوا اور لاکھوں روپے کی کتابیں خریدی گئیں۔ لاہور کے ایکسپو سنٹر میں ہونے والا پانچ روزہ کتاب میلہ بہت کامیاب رہا اور اب 20فروری سے پنجاب یونیورسٹی میں تین روزہ کتاب میلہ منعقد ہو رہا ہے۔ ایک پڑھے لکھے معاشرے کی سب سے بڑی نشانی یہی ہوتی ہے کہ کتاب اس کی پہچان بن جاتی ہے۔ کتابوں کی باتوں کے سلسلے میں آج دو کتابوں کاتعارف مقصود ہے۔ ان میں پہلی کتاب ”ڈاکٹر سید فاروق احمد مشہدی“ کے نام سے لکھی گئی ہے، جس کے ترتیب و تدوین کار سید طارق جاوید مشہدی ہیں، جبکہ دوسری کتاب معروف نقاد اور شاعر ڈاکٹر محمد امین کی ”تفہیم و تحسین“ ہے جو ان کے مضامین پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں کتابیں ملتان سے شائع ہوئی ہیں البتہ اپنی اہمیت کے لحاظ سے یہ بڑی کتابیں شمار کی جا سکتی ہیں ۔ پہلے طارق جاوید مشہدی کی مرتب کردہ کتاب پر بات کرتے ہیں ۔ ”ڈاکٹر سید احمد فاروق مشہدی“ ممتاز نقاد، ماہر تعلیم شاعر اور دانشور ڈاکٹر سید احمد فاروق مشہدی پر ان کی وفات کے بعد لکھی گئی تحریروں پر مشتمل ہے۔ تاہم اس کے پہلے حصے میں ان کی منتخب تحریریں بھی شامل کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی ملتان کے علمی حلقوں کی ایک معروف شخصیت تھے۔ انہوں نے 1978ء میں بہاء الدین ذکر یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں اول آکر گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اس کے بعد وہ ایجوکیشن کے مضمون میں پی ایچ ڈی کے لئے بریڈ فورڈ یونیورسٹی برطانیہ چلے گئے۔ پی ایچ ڈی کے بعد واپس آئے تو شعبہ ایجوکیشن ذکریا یونیورسٹی میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ جتنے ذہین طالب علم تھے، اتنے ہی قابل استاد ثابت ہوئے۔ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے وہ شعبہ ایجوکیشن کے چیئرمین بنے اور وہیں سے ریٹائر ہوئےّ 5جنوری 2021ء کو ملتان میں ان کا انتقال ہوا۔ اس کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے وہ اپنے شاگردوں، اساتذہ، ہمصروں اور فیملی ممبران میں کتنے مقبول تھے۔ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا اس کتاب میں جس خوبصورتی سے احاطہ کیا گیا ہے، وہ قارئین کے لئے دلچسپی کے کئی سامان مہیا کرتی ہے۔
کتاب کے پہلے حصے میں ڈاکٹر سید احمد فاروق مشہدی کے جو مضامین شامل ہیں۔ وہ نہ صرف دلچسپ ہیں بلکہ ادب اور ادبی شخصیات کے بارے میں گراں قدر مواد بھی فراہم کرتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب،ممتاز مفتی، منیر نیازی، احمد فراز، مصطفی زیدی، مختار مسعود، شیخ منظور الٰہی اور دیگر نامور شخصیات کے حوالے سے انہوں نے جہاں اپنی یادوں کے دریچے وا کئے ہیں، وہیں ان کے فن پر تجزیاتی نگاہ بھی ڈالی ہے۔ منیر نیازی سے اپنی مختلف ملاقاتوں کا احوال انہوں نے بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ میرا خیال ہے جو انکشافات اس مضمون میں کئے گئے ہیں، وہ منیر نیازی کے حوالے سے پہلے سامنے نہیں آئے۔ قدرت اللہ شہاب کے بارے میں بھی ان کا مضمون بڑے خاصے کی چیز ہے۔ انہوں نے اپنے نام قدرت اللہ شہاب کے ایک خط کو بھی درج کیا ہے۔ اس کتاب کے دوسرے حصے میں جہاں ان کی اہلیہ سیدہ رضوانہ فاروق، بیٹی، بیٹے، بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کی خوبصورت تحریریں موجود ہیں، جن سے ان کی شخصیت کے گداز پن کا اندازہ ہوتا ہے، وہیں بڑے اور معروف اہلِ قلم کے ان پر لکھے گئے مضامین بھی شامل ہیں جن میں ڈاکٹر اے بی اشرف، ڈاکٹر شمیم ترمذی، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر مختار ظفر، ڈاکٹر شعیب عتیق خان سمیت بہت سے لکھنے والے شامل ہیں۔
آج کی دوسری کتاب ”تفہیم و تحسین“ ہے جس کے مصنف ڈاکٹر محمد امین ہیں۔ ڈاکٹر صاحب فلسفے کے استاد ہیں اور ان کا ایک اعزازیہ بھی ہے کہ انہوں نے جاپانی صف ہائیکو کوپاکستان میں متعارف کرایا، ہائیکوتین مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے اور آج مقبول صف شمار کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر محمد امین ایک کہنہ مشق اور صاحب الرائے نقاد ہیں۔ وہ ایک خاص نظریے کے ساتھ نقد و نظر کرتے ہیں۔ یہ کتاب ان کے مضامین اور کتابوں پر کئے گئے تبصروں پر مشتمل ہے۔ تنقیدی نقطہ ء نظر سے مضامین لکھنا ایک مشکل کام ہے۔ خاص طور پر کسی تخلیق کا بے لاگ محاکمہ کرنا آسان کام نہیں ہوتا۔ نقاد ذرا سا بھٹک جائے یا کسی تعصب کا شکار ہو جائے تو اس کی تنقید ابتدال کا شکار ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر محمد امین ایک ایسے نقاد ہیں جو تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کسی جانبداری کا شکار نہیں ہوتے بلکہ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے تخلیق کے اصل محرکات اور خوبیوں کو سامنے لایا جائے۔ ان کی یہ کتاب اس لئے اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں انہوں نے فیض احمد فیض اور مجید امجد کی شاعری کا ایک منفرد تناظر میں جائزہ لیا ہے۔ فیض کی نظموں کا ہیئت کے اعتبار سے مطالعہ بہت دلچسپ حقائق سامنے لاتا ہے۔ مجید امجد کی دوشہرۂ آفاق نظموں، آٹوگراف اور دوام کی انہوں نے جس اچھوتے زاویے سے تفہیم کی ہے۔ وہ ان کے بڑے نقاد ہونے کی دلیل ہے: کتاب میں 51مضامین شامل ہیں، ہر مضمون اپنے اندر واقعتا ادب کی تفہیم اور تحسین لئے ہوئے ہے۔ ڈاکٹر محمد امین تنقید کرتے ہوئے کسی ابہام کا شکار نہیں ہوئے، بڑے سادہ پیرائے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کی نثر بذاتِ خود اپنے اندر خوبصورتی اور جاذبیت رکھتی ہے، ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب لکھنے والا اپنی رائے میں واضح اور اسلوب میں یکتا ہو۔ ایک نقاد کے نظریہء تنقید کو سمجھنے کے لئے اس کے زاویہء فکر کو سمجھنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر محمد امین اگرچہ فلسفے جیسے دقیق مضمون کے استاد ہیں تاہم ادب میں ان کی سادگی و صلابت ان کی پہچان ہے۔ اس کتاب میں ان کے پسندیدہ موضوع کے ہائیکو پر تین مضامین بھی شامل ہیں۔ اس صف کو سمجھنے کے لئے ان کا مضمون ”تلفظ اور وزن“ پڑھنا ازحد ضروری ہے۔ پھر انہوں نے دوسرے مضمون میں ہائیکو نگاری کی اردو میں مختلف جہات کا جائزہ بھی لیا ہے جبکہ تیسرے مضمون میں انہوں نے ملتان میں ہائیکو نگاری کی روایت کو بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد امین کے مضامین پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے انہیں تاریخ و تہذیب کا گہرا شعور بھی ہے۔ وہ ان کے حوالے دے کر جب اپنی رائے کو سامنے لاتے ہیں تو مزادوآتشہ ہو جاتا ہے۔ اس کتاب کو گرد وپیش پبلکیشنز نے خوبصورتی سے شائع کیا ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ پاکستان )
فیس بک کمینٹ