بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے مرکزی رہنما ذوالفقار بلوچ نے کہا ہے کہ شور شرابہ کرنے کی بجائے حقائق کو کھلے دل سے تسلیم کیا جائے۔ ان کے نزدیک حقائق یہ ہیں کہ ڈیرہ غازیخان اور راجن پور کے اضلاع صوبہ بلوچستان کا حصہ ہیں اور ا ن اضلاع کو بلوچستان میں ضم ہونا چاہیے ۔ اگر خطوں کی تقسیم وہاں بسنے والی قوموں کے تشخص کی بنیاد پر کی جاتی ہے تو ذوالفقار بلوچ کی اس ’’حقیقت‘‘ کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
اس حقیقت کو دریائے سندھ کے مغربی کنارے اور کنارے سے منسلک علاقوں میں بسنے والے بلوچوں کی بڑی تعداد تقویت دیتی ہے۔ یہ قوم ڈیرہ اسماعیل خان سے راجن پور کے انتہائی سرے تک واضح اور برتری آمیز تعداد میں آباد ہے۔ یہ لوگ بلوچی، پشتو اور سرائیکی زبانیں بولتے ہیں۔
اس حقیقت کوعلاقے کی ثقافتی اقدار بھی حمایت بخشتی ہیں۔ بجا طور پر ان لوگوں کا رہن سہن اور طور و اطوار ملتان اور بہاولپور کے باسیوں سے مختلف ہیں۔ زبان بھی معمولی مگر عمومی تغیر کی حامل ہے۔ سرائیکی رہنما اختر خان مینگل ان کی ’’حقیقت‘‘ کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
ذوالفقار بلوچ نے یہ بھی کہا ہے کہ سرائیکی کوئی قوم نہیں ہے بلکہ ایک زبان ہے۔ سرائیکی رہنماؤں کی طرف سے صوبے کے لئے مجوزہ خطے میں اس نام کی کوئی قوم آباد نہیں ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں طشت ازبام ہونے والی ڈاکٹر مہر عبدالحق کی تحقیق سے قبل لفظ ’’سرائیکی‘‘ کا ماخذ یا سیاق و سباق تلاش کرنا محال ہے۔ اگر پوری احتیاط سے تحقیق کی جائے تو یہ طے کرنا مشکل نہیں رہتا کہ 1970ء سے پہلے یہی مجوزہ خطہ چار متوازن علاقوں میں منقسم تھا۔ زیریں خوشاب، زیریں میانوالی، بھکر، لیہ اور بالائی مظفرگڑھ پر مشتمل علاقہ ’’تھل‘‘ کے نام سے تاریخِ عالم کا حصہ ہے اور یہاں بولنے والی زبان ’’تھلوچی‘‘ ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ہم بچپن میں سرگودھا یا فیصل آباد اپنے رشتہ داروں کے ہاں جایا کرتے تھے تو وہاں ہمیں ’’تھلوچی‘‘ کہہ کر چھیڑا جاتا تھا۔
اسی طرح دریائے سندھ کے مغربی کنارے سے منسلک علاقہ پہاڑوں کا نشیب ہونے کی بدولت ’’دمان‘‘ کہلاتا تھا۔اس لفظ کا مآخذ ’’دامنِ کوہ‘‘ تھا۔ یہاں بولی جانے والی زبان کوعلاقے کی مناسبت سے ’’دمانی‘‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ ملتان نہایت قدیم تاریخ کا حامل شہر ہے۔ تاریخ میں اس کا نام مول استھان، مولستھان، مولتان اور ملتان ملتا ہے جبکہ اس خطے کی رائج زبان کو ’’ملتانی‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس کا صوبائی تشخص بھی صوبہ لاہور کے متوازی چلتا رہا۔ڈیرہ غازیخان ملتان سے علیحدہ میرانی بلوچوں کی ریاست تھی جن کا اقتدار صدیوں پر محیط تھا۔ بہاولپور بھی ایک ریاست کے طور پر جغرافیائی ہند کا حصہ تھا اور یہاں کی زبان کو ’’ریاستی‘‘ کہا جاتا تھا۔ میانوالی اور اس کے بالائی متصل علاقوں کی روایتی زبان ان سب زبانوں سے اسی طرح مختلف ہے جس طرح صوبہ پنجاب میں ہر چالیس کلومیٹر کے بعد پنجابی کے لہجے میں بدلاؤ ملتا ہے۔
اس بحث کا مقصد وہ سبب تلاش کرنا نہیں ہے جس کی بنیاد پر ان سب مختلف بولیوں کو ’’سرائیکی‘‘ کا نام دیا گیا بلکہ یہ دیکھنا مقصود ہے کہ ان مختلف زبانوں کو ایگزیکٹو آرڈر کے تحت یکجا کرنا، پھر اس غیر فطری یکجائی کی بنیاد پر مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک قومیت کا اعلان کرنا اور پھر اس کی بطور صوبہ علیحدگی کے لئے کوششیں کرنا موزوں عمل ہے یا نہیں۔ ہمارے تجربہ کار سرائیکی رہنماؤں کے نزدیک الگ صوبے کی تشکیل کا اہم سبب وہ محرومی ہے جو پنجاب کی صوبائی حکومت نے اس خطے کے لئے طویل عرصہ سے مختص کر رکھی ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی سمجھ میں آتا ہے کہ ریونیو کے حصول اور فنڈز کی فراہمی میں تناسب نہیں ہے جس کی وجہ سے اس علاقہ میں ترقی اور نمو کا عمل نہایت سست ہے مگر زبان کی بنیاد پر الگ صوبے کا مطالبہ سمجھ میں نہیں آتا۔
اگر سرائیکی زبان کی بنیاد پر پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے تو بلاشبہ وفاق اور ملکی سا لمیت پر ضرب نہیں لگتی بلکہ انتظامی طور پر اس کے معاملات میں بہتری کی توقع بھی کی جا سکتی ہے مگر آنے والے وقت میں تھلوچی، دمانی اور ریاستی زبانیں بولنے والوں نے اپنی الگ پہچان کا تقاضا کر دیا تو کیا ہو گا؟
ایک اور پریشانی جو متوقع سرائیکی صوبے کے عوام کو لاحق ہے، وہ آبادی کے مقابلے میں سرکاری اداروں کا شدید فقدان ہے۔ تعلیمی اداروں کی تعدادمقامی ضرورت پوری نہیں کرتی۔ ایوان، دفاتر اور شاہی لوازمات پورے کرنے پر کتنا سرمایہ خرچ ہو گا، کتنی بڑی رقم اللوں تللوں میں خرچ ہو گی، اس کی تخمینہ کاری سرِ دست ناممکن ہے۔ ملکی وسائل کی حالتِ زار کو دیکھتے ہوئے آئندہ دس برسوں میں ان اداروں کی تعداد پوری ہوتی نظر نہیں آتی جس سے کئی نسلیں متاثر ہوں گی۔
ہمارے محترم سرائیکی رہنما بخوبی سمجھتے ہیں کہ نئے صوبے کی باگ ڈور انہی ناکام سیاست دانوں کے ہاتھ آنی ہے جو پنجاب حکومت میں اتنے ہی بااثر ہیں جتنے بالائی پنجاب کے سیاست دان۔ ہر اسمبلی میں اور ہر دورِ حکومت میں اعلیٰ جمہوری و غیر جمہوری عہدوں پر جنوبی پنجاب کے وڈیرے براجمان رہے ہیں جو چاہتے تو یہ خطہ ارضی جنت بن جاتا مگر انہوں نے ذاتی وسائل کے اجتماع اور ارتقاء پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔اس خطے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی سیاسی رہنما نے اپنے وژن میں وسعت پیدا نہیں کی بلکہ اپنی ناکامیوں کو ’’تخت لاہور‘‘ کی کارگزاری قرار دیا۔
ہمارے مسائل کا حل نیا صوبہ نہیں بلکہ وسیع وژن رکھنے والے مخلص نمائندوں کو آگے لانے میں مضمر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عوام نے کبھی بھی ایسی کوشش کی ہی نہیں۔
فیس بک کمینٹ