
چند برس قبل تحصیل ہال لیہ میں ادبی تنظیم لیہ ادبی فورم کے زیرِ اہتمام جلسہ ء تقسیم اعزاز منعقد ہوا۔ ایک سو سات ایوارڈ دیے گئے۔ ان ایک سو سات میں مََیں بھی پورے اہتمام کے ساتھ کہیں موجود تھا۔ پھر اعلان کیا گیا کہ اگر کوئی شخص رہ گیا ہو، یا کسی کا دوست شاعر / ادیب رہ گیا ہو تو وہ سٹیج پر آ کر، رہ جانے والے کا نام لکھوا کر ایوارڈ وصول کر سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ لوگوں نے ایوارڈ لیے مگر یہ ایوارڈ لوگوں کے گھروں تک نہ پہنچ سکے۔ راستے میں ہی کہیں پھینک دیے گئے۔۔۔۔۔۔۔ ہم خوش قسمتوں نے نسیمِ لیہ کے نام پر ہونے والی “گل عباسی” کا سلسلہ پاکستان بھر میں دراز ہوتے دیکھا۔ زمان و مکان کی قید سے آزاد “نسیمِ لیہ ایوارڈ” کو انگنت تحصیلداروں، انسپکٹروں اور بالا و تہہ بالا افسروں کی میزوں تک جاتے دیکھا۔ یہ تماشائے اہلِ کرم کم و بیش ہر علاقہ میں ہر سال منعقد کیا جاتا ہے۔ اس سال بھی منعقد ہوا۔ لیہ میں بھی ایسا ہوا اور ہوتا رہے گا مگر ان تماشا سازوں سے عرض ہے کہ جب انہیں ادبی دنیا میں زندہ رہنے کیلئے “گل عباسی” کرنی مقصود ہو تو وہ یاد رکھیں کہ جسارت خیالی، گفتار خیالی، جرات عباس، ریاض راہی اور کاشف مجید سے زیادہ کوئی شخص خیال امروہوی ایوارڈ کا مستحق نہیں ہے۔ پروفیسر عطا محمد عطا سے بڑھ کر ڈاکٹر مہر عبدالحق ایوارڈ کا کوئی شخص اہل نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ 75یا 80 ایوارڈوں کی کہانی پرانی ہے۔ میرے دوست اسے دل پر مت لیں۔ ایوارڈ کے مستحق احباب کو اگر ایوارڈ نہیں دیا گیا تو یہ ایوارڈ کی بے توقیری ہے۔اہل افراد کی نہیں۔ ویسے بھی یہ ایوارڈ احباب کی “گل عباسی” کیلئے دیے جاتے ہیں ناں کہ معیار و امتیاز کے اعتراف میں۔ چونکہ ان کو “بانٹنے” سے قبل کوئی پیمانہ مقرر نہیں کیا جاتا، اعلان و اشتہار اور نامزدگی کا عمل نہیں کیا جاتا، اس لیے انہیں مقابلہ جاتی دنیا میں کوئی حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔ یہ کار انا کا مسئلہ بننے کے لائق کار نہیں ہے۔ یہ کہانی صدارتی ایوارڈ تک جاتی ہے۔ اب اگر کوئی از خود یہ خیال راسخ کر لیتا ہے کہ صدرِ پاکستان کتابیں پڑھ کر ایوارڈ دیتے ہیں یا صدرِ پاکستان کے پڑھے لکھے منشی کتابیں پڑھ کر ایوارڈ کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر یہ اس کا اپنا عقیدہ اور ذاتی “کیا دھرا” ہے، میرا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ بہرحال میں تو فخر کرتا ہوں، عن قریب ہر پاکستانی ادیب فخر کرے گا اور کہے گا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “الحمد للہ! مجھے آج تک کوئی ایوارڈ نہیں ملا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”