اگرپاکستان کے 16 کروڑ سے زیادہ عوام کو رائے دہی کا حق حاصل ہے توپھر حکومت بننے کے بعد وہ 16کروڑ لوگ کہاں گئے؟ انہیں ووٹ کے ثمرات کیوں نہ ملے؟ اور جو اب نئے پاکستان پر نظریں جمائے بیٹھی ہےاور جمہوریت کے ثمرات سمیٹ رہی ہے ، وہ کون سی مخلوق ہے؟ نئے اور پرانے پاکستان میں کوئی فرق بھی ہے یا نہیں؟یا یہ نعرہ بھی” روٹی کپڑا اور مکان“ کی طرح محض معصوم عوام سے ووٹ بٹورنے کا ایک ڈھونگ تھا۔۔
ہر وہ شخص جو شناختی کارڈ رکھتا ہے۔وہ قومی اور صوبائی اسمبلی سمیت گلی محلے میں بھی نمائندے منتخب کرنے کیلئے جمہوری عمل کا حصہ بنتا ہے۔۔یہ عام سی باتیں اہم اس وقت ہوتی ہیں جب کسی ایک ووٹر کو امیدواروں کے جم غفیر میں سے کسی ایک منتخب کرنا ہوتا ہے۔پاکستان کے زیادہ تر ووٹر سادہ اور کم پڑھے لکھے ہیں۔جو ہمیشہ کسی نہ کسی کے زیرسایہ ہی رہتے ہیں۔” آزادانہ“ انتخابات میں بھلا وہ کیسے آزادانہ طور پر اپنے ہر دلعزیز امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں۔۔ووٹ لینے کے نام پر وعدے تو ایک جیسے ہی کیے جاتے ہیں اور ان میں زبان زدعام وعدے تو بیروزگاری کے خاتمے اور غربت کے خاتمے کے ہیں۔۔ملک کی باگ ڈور قیام پاکستان سے لیکر آج تک جن صاحب حیثیت اور باصلاحیت لوگوں نے سنبھال رکھی ہے انہوں نے کوئی وعدہ پورا کیا یا نہیں مگر ان امیدواروں نے اپنے لیے ووٹ مانگتے ہوئے عوام کا نام ضروراستعمال کیا۔پھر برسراقتدارآنے کے بعد وہ عوام کے لیے نہیں کسی اور کے لیے کام کرتے رہے۔یقین نہ آئے تو آ ئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کے نتیجے میں عوام کا کچومر نکالنے والی موجودہ حکومت اور وز یر اعظم کا طرز عمل دیکھ لیں۔