کیا ہم آزاد ہیں جنہوں نے 1947 ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی ، یا وہ آزاد ہیں جو 1971 ء میں ہم سے آزاد ہوئے۔۔۔ آج بھی ہم آبادی کے لحاظ سے اوربعض دیگر وجوہات کی بنا پر خود کو بنگالیوں سے بڑی قوم سمجھتے ہیں لیکن ہم میں وہ اعتماد ہرگز نہیں جو ایک آزاد قوم میں ہونا چاہیئے ۔ یہ اعتماد ہمیں ان کے ہاں دکھائی دیتا ہے ۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ وہ تو خود کو آزاد تصور کرتے ہیں۔اور ہم آج بھی نئے پاکدتان میں رہ کر بھی نئے پاکستان کی جستجو کیئے ہوئے ہیں۔کیا کچھ سوالات سیاستدانوں سمیت ہمیں اپنے آپ سے نہیں کرنے چاہئیں؟ ۔کیا ہمیں یہ نہیں پوچھنا چاہیئے کہ ہم ایک قوم کیوں نہیں بن پائے ۔۔کیا کبھی ہمارا موقف بھی ایک ہوگا۔۔یا ہم ہمیشہ مفادات کی جنگ میں ہی گھسیٹے جائینگے۔۔
آپ کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کو ہی لے لیجئے۔جنہوں نے بنگلہ دیش کو تو شکست دیدی لیکن آپ بھارت کو نہیں ہرا پائے ۔۔کرکٹ کے کھیل سے منسلک تجزیہ نگار کچھ بھی کہیں کہ پاکستان اگر ویسٹ انڈیز سے کم مارجن سے ہارتا۔۔اور فلاں ٹیم فلاں سے ہار جاتی تو صورتحال مختلف ہوتی لیکن کیا قوم اپنی ٹیم کی ان فتوحات سے خوش ہے۔جو انہوں نے ورلڈ کپ میں سمیٹیں ۔ہر گز نہیں قومی ٹیم سیمی فائنل تک رسائی حاصل نہیں کر پائی تو بھلا کیا فرق پڑتا ہے ۔ قوم نے تو صرف بھارت کیخلاف میچ جیتنے کی امیدیں ان سے وا بستہ کی تھیں۔۔بلا شبہ قومی کرکٹ ٹیم قومی کھیل نہیں کھیل رہی تھی۔۔مگر کھیل تو کھیل رہی تھی ناں۔؟پاکستانی قوم تو بھارت کی ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کے ہاتھوں شکست دیکھنا چاہتے تھے۔پر ایسا ممکن تو نہ ہو سکا۔ اب قومی ٹیم کی بنگلہ دیش سے جیت بھی اسے سیمی فائنل تک نہ لیجا سکی۔۔کہتے ہیں کہ ورلڈ کے بعد کرکٹ ٹیم کے کوچ مکی آرتھر اور کپتان سرفراز کو تبدیل کر دیا جائیگا۔لیکن کیا عوام کے ہمدرد اور تبدیلی سرکار کے نام پر ووٹ لینے والے بھی اپنی ناکامیوں کا کسی کو جواب دیں گے ؟ ۔