یوں تو ہم سب ہی اپنے اپنے مزاج کے حوالے سے عجیب ہیں مگر ہمارا روشن خیال دانشور عجیب تر ہے،کسی بھی نظریئے،فکر اور نکتہ ء نظر کے خدوخال بنتے ہوئے وہ اپنے تہذیبی ثقافتی ورثوں تک کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا،یہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔اسی المیئے نے ہمارے ہاں فکری جمود کی فضاقائم رکھی ہوئی ہے۔ہم نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہوئے،ایک مسلمان باپ کے گھر پیدا ہوکر کلمہ طیبہ سے بولنا سیکھنے کے ماحول میں پرورش پاکر،اسلامی نام کو اپنی پہچان کا ذریعہ بناکر بھی اپنے آپ کو مسلم تہذیب و ثقافت کا نمائندہ کہلوانے میں ندامت کا رویہ اپنا یا ہوا ہے۔کیا یہ سچ نہیں؟
وہ سچ جسے ہم تسلیم کرنے کی جرأت سے بھی عاری ہیں۔ہم میں کچھ ایسے بھی ہیں جو محمدﷺ کے گھرانے کے حوالے سے بڑے فخر وشرف کے ساتھ اپنا تعارف کرواتے ہیں،اپنا شجرہ حسب ونسب حضرت حسین ؓ کے قبیلے سے جا ملاتے ہیں،مگر حسینؓ کے نانا ﷺکے دین کی عظمت و حشمت اور عزت و آبرو کے کبھی پاسدار نہیں رہے۔
قومی اقلیتی کمیشن کے حوالے سے اپنے روشن خیال قلمکاروں اور دانشوروں کے موجودہ رویئے پر حیرت ہے جو روشن خیالی کے زعم میں دانشورانہ تعلّی کی روش اپنائے ہوئے ہیں،انہیں مطلق یہ احساس نہیں کہ ایک اقلیت کے دل میں جگہ پیدا کرنے کے لئے کتنی بڑی اکثریت کی دل آزاری کے ارتکاب پر تلے ہوئے ہیں۔اقلیتی کمیشن کے حوالے سے پی، ٹی،آئی کے جس موقف کا جائزہ لیا جارہاہے اس پر حسبِ معمول وہ رجوع کا عندیہ بھی دے چکی،اس پر عقیدہ ختم نبوتﷺ پر کامل یقین رکھنے والا کوئی مسلمان ایک سے زیادہ آرا ء نہیں رکھ سکتا۔لیکن ہمارے روشن خیال دانشور اور قلمکار حرف و صوت پرکمال ہنر کے زعم میں پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے،جو ذہن میں آتا ہے قرطاس پر لکھتے چلے جاتے ہیں۔
73ء کے آئین کا کانٹا جو ان کے دل و دماغ میں چبھا ہوا ہے وہ انہیں چین نہیں لینے دیتا،اس درد میں جو جی میں آئے لکھتے چلے جاتے ہیں،وہ اپنے جمہوری مزاج کی نفی کرنے میں پستہ تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
قادیانیوں کا غیر مسلم اقلیت ہونا تو آئین کا حصہ ہے مگر مرتد ہونا مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے،اسی لئے قومی اقلیتی کمیشن میں ان کے لئے کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی،شہید ذوالفقار علی بھٹو کا یہ عظیم کارنامہ ہے جس پر انہیں فخر تھا اورہونا بھی چاہئے کہ یہ فقط پاکستان کا نہیں پوری امت مسلمہ کا مسئلہ تھا جس کے لئے 1953 ء میں فقط لاہور میں دس ہزار مسلمانوں نے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا تھا۔
یہاں یہ امر بھی قابل گرفت ہے کسی قادیانی نے آج تک اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم نہیں کیا بلکہ اپنے نام کے ساتھ احمدی کا سابقہ لگاتے ہیں،جو کہ صریحاََجرم ہے کہ یہ آئین شکنی کے زمرے میں آتا ہے۔بعض روشن خیال دانشور یہاں تک کہہ دینے سے گریز نہیں کرتے کہ یہ تو مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ ہے،بریلوی،دیوبندی اور اہل حدیث کی طرح،ان کی اصلاح کے لئے عرض ہے کہ بریلوی،دیو بندی اور اہل حدیث فرقے نہیں مسالک ہیں،مسئلہ ختم نبوتﷺ ہی نہیں وہ ایک قرآن اور ایک کلمہ پر بھی متفق ہیں جبکہ قادیانیوں نے ایک فرقہ گھڑا،بلکہ انگریز نے مسلمانوں کے اندر نقب لگا کر یہ مکروہ پودا کاشت کیا اور اس پودے کا سارا ثمر مرتد کہلانے کا سزا وار ہے،اسے کافر کہنا ڈھیل دینے کے مترادف ہے جس سے ناجائز فائدہ اٹھا کر مرتدین کا یہ ٹولہ دنیا میں محمدﷺ کے آخری نبیﷺ نہ ہونے کا پرچار کچھ اس طرح کرتا ہے کہ سادہ لوح لوگوں کے دلوں میں شک و ریب کانٹے چبھ کررہ جاتے ہیں فقط اسی تک محدود ہوتا تو کچھ نہ تھا،اپنے ٹولے کے فروغ کے لئے ان کی طرف سے اندھی مراعات کے دروازے ہر ہر لمحہ کھلے ہیں۔
پی پی پی کے پہلے دور حکومت کے بعد سے اب تک قادیانیوں کے گماشتے 73 ء کے آئین میں ترمیم کے لئے گھات لگائے بیٹھے ہیں اور موقع کی تلاش میں رہے ہیں،جو کسی نہ کسی طور کارڈ پھینک کر یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ مسئلے کی نوعیت کیا ہے اور کس طریقے سے آئین میں ترمیم کابل زیر بحث لایا جا سکتا ہے،شہید بھٹو کے بعد کی ساری حکومتیں
اس تسامح کا شکار ہوتی رہی ہیں مگر عوامی غیظ و غضب کی کوئی تاب نہیں لا سکا اور نہ اس وقت تک ایسا ممکن ہے جب تک ختم نبوتﷺ پر ایمان رکھنے والا کوئی ایک بھی مسلمان موجود ہے وہ کسی بھی مسلک کا ہو کہ مسلکی تنازعوں پر تو مباہلے اور
مناظرے ہوتے رہتے ہیں،نبی آخرالزمان ﷺ کی نبوت پر مسلمان ہمیشہ یک جان و دو قالب رہے ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔
فیس بک کمینٹ