اختصارئےلکھارینوید صدیقی
ابا آ آ آ آ آ آ : حبس کہانیاں / نوید صدیقی

فیملی ہاسپٹل کا موڑ مڑتے ہی رس سے بھری کیتلی نے رکنے پر مجبور کردیا۔ گنے کے رس کی خواہش نے برستے سورج کی گرمی کی پروا بھی نہیں کی۔ ” ایک بڑا گلاس ۔ ۔ پیک کر دو۔“
رس بیچنے والے نے میری طرف ایک آشنا مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا۔ شاپر میں رس انڈیلا،تیزی سے مجھے تھما دیا۔ میں نے پیسے پکڑاتے ہوئے دائیں طرف لکڑی کے بنچ پر ایک غریب ، سادہ مزدور اور اس کے کے ساتھ چمٹی تین چار سالہ بچی پر نظر ڈالی جو پسینوں میں شرابور شاید کافی دیر سے رس پینے کے انتظار میں بیٹھی تھی ۔ اس نے رس بھرا شاپر میرے ہاتھ میں دیکھا تو اپنے باپ کی قمیض زورسے کھینچ کر تقریباً روتے ہوئے کہا۔ ” ابا آ آ آ آ آ آ ! “
فیس بک کمینٹ