مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے لاہور میں اپنی پارٹی اجلاس کے دوران تجویز دی ہے کہ ’ تمام سیاسی پارٹیوں، حکومتوں اور اداروں کو مل کر فیصلے کرنے چاہئیں۔ انہیں ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے مل بیٹھنا چاہئے‘۔ ملک میں متنوع مسائل کی موجودہ صورت حال میں ایک اہم لیڈر کا یہ بیان امید کی کرن تو کہا جاسکتا ہے لیکن اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ مقصد کیسے حاصل ہو اور کون اس کام کا بیڑا اٹھائے۔
نواز شریف چونکہ خود حکومت میں نہیں ہیں ، اس لیے وہ جیسے بجلی کی بڑھی ہوئی قیمتوں کو غریب عوام کے لیے ناقابل قبول قرار دے کر سیاسی طور سے اپنے لیے جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ اب وسیع بنیادوں پر مکالمے اور تعاون کی بات کرتے ہوئے بھی وہ ایسا ہی کوئی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہوں۔ کیوں کہ ایک تو ان کی پارٹی کے اہم لیڈر جو شہباز حکومت کا حصہ بھی ہیں، وہ عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ موجودہ حالات میں بات چیت کے حامی نہیں ہیں ۔ لیکن نواز شریف نے جو تجویز دی ہے اس میں اس وسیع البنیاد ڈائیلاگ میں تحریک انصاف کو شامل کرنے کا اشارہ دیا گیا ہے۔ دوسرے میڈیا میں رپورٹ ہونے والے ا س بیان سے نواز شریف کا مؤقف واضح طور سے سامنے نہیں آیا۔ یہ بیان مسلم لیگ (ن) نے خود جاری کیا ہے لیکن اس سے سیاسی ابہام ختم نہیں ہؤا اور نہ ہی یہ دکھائی دیتا ہے کہ اس سے حکمران جماعت کے لیڈر واقعی کشیدگی کم کرنے کی خواہش ظاہر کررہے ہیں۔
تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان تنازعہ کے سوال پر غور کرنے سے پہلے اگر اس بیان کی ماہیت اور درپردہ پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو نواز شریف کے کسی بلند عزم یا ارادے کو تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ یوں بھی ملک کی موجودہ سیاسی و انتظامی صورت حال میں اب یہ امکان بھی دکھائی نہیں دیتا کہ سیاسی پارٹیوں کے درمیان بات چیت مسائل حل کرنے میں معاون ہوسکتی ہے۔ ملک میں 8 فروری کے انتخابات کے بعدسے متعدد حلقوں اور تجزیہ نگاروں کی طرف سے اس حوالے سے تجاویز پیش کی جاتی رہی ہیں لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں وقت کی بہت اہمیت ہے۔ یعنی ہر کام کا ایک موقع ہوتا ہے۔ یہ موقع گنوا دیا جائے تو پھر وہی کام جو چند ماہ پہلے کارگر ہوسکتا تھا، سعی لاحاصل بھی بن سکتا ہے۔ ملک کے حالات گزشتہ 6 کے دوران میں اس تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں کہ اب سیاسی پارٹیاں مل بیٹھ بھی جائیں تو بھی کوئی مقصد حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس لیے سیاسی اشتراک و اتحاد کی بات کرنے کا مشورہ یا کوششیں اب بے وقت کی راگنی معلوم ہوتی ہیں۔
نواز شریف کے بیان میں یوں بھی یہ ابہام موجود ہے کہ وہ سیاسی پارٹیوں میں بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنا چاہ رہے ہیں یا اداروں کو بھی اس میں شامل کرکے کوئی وسیع تر قومی منصوبہ بنانے کی تجویز دے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں سیاسی پارٹیوں اور اداروں کے علاوہ حکومتوں کو بھی مجوزہ بات چیت میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس سے اس تجویز کا اسکوپ تو ضرور وسیع ہؤا ہے لیکن ایک تو نواز شریف کو ایک پارٹی لیڈر کے طور پر ایسی تجویز دینے کا مینڈیٹ حاصل نہیں ہے۔ اگر حکومتوں کو سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بات چیت میں شامل کرنا مطلوب ہے تو اس کی تجویز یا خاکہ حکومت کی طرف سے سامنے آنا چاہئے تھا۔ یہ تو درست ہے کہ مرکز میں ان کے بھائی شہباز شریف وزیر اعظم ہیں اور پنجاب میں ان کی صاحبزادی مریم نواز اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں مسلم لیگ (ن) کے لاہور میں ہونے والے اس اجلاس میں شریک بھی تھے جس میں پارٹی نے نواز شریف کی قیادت میں اشتراک و تعاون کے معاملات پر غور کیا ۔ البتہ اس کے باوجود ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر کے پاس یہ اختیار نہیں ہوسکتا کہ وہ حکومتوں کو تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر معاملات طے کرنے پر آمادہ کرسکے۔
اس کے علاوہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت ملک میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعاون اور اختیارات کی تقسیم کا میکنزم موجود ہے۔ پھر یہ سب حکومتیں محض نواز شریف کی تجویز پر کس قانونی دائرہ کار کے تحت سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل بیٹھیں گی۔ سب صوبوں میں مختلف پارٹیوں کی حکومتیں ہیں اور وہ اپنے اپنے حالات کے مطابق معاملات طے کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مشترکہ مفادات کونسل کے نام سے وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان معاملات طے کرنے کا طریقہ کار بھی موجود ہے۔ صوبے اپنی ضرورتوں کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اور بعض معاملات میں انہیں وفاق سے مشورہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ جیسا کہ چند ہفتے پہلے نواز شریف نے ہی پنجاب میں بجلی کے صارفین کو خصوصی رعایت دینے کا اعلان وفاقی حکومت یا دوسرے صوبوں سے کسی مشاورت کے بغیر کیا۔ اس کے بعد وفاق یہ وضاحتیں دیتا رہا کہ یہ رقم پنجاب حکومت اپنے ترقیاتی فنڈز میں سے فراہم کرے گی۔ لیکن سندھ حکومت کے علاوہ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اس بات پر پیچ و تاب کھاتے رہے کہ پنجاب نے ایک اہم اور نازک معاملہ میں یک طرفہ اعلان کرکے دوسری صوبائی حکومتوں کی پوزیشن خراب کی ہے۔
اسی طرح ابھی گزشتہ ویک اینڈ پر بلوچستان میں دہشت گردی کے متعدد واقعات کے بعد وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے وزیر داخلہ اور وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر صوبے میں امن و امان کی صورت حال پر قابو پانے کے لیےحکمت عملی تشکیل دی اور لائحہ عمل تیار کیا۔ اس حوالے سے پالیسی بیان بھی وفاق کے اشتراک سے جاری ہوئے۔ اس میں دوسرے صوبوں کی مشاور ت شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
اس پس منظر میں نواز شریف کی یہ تجویز ناقابل عمل اور مبہم ہے کہ ’ تمام سیاسی پارٹیوں، حکومتوں اور اداروں کو مل کر فیصلے کرنے چاہئیں‘۔ یہ فیصلے ہر صوبہ اپنی ضرورتوں کے مطابق کرتا ہے اور جہاں اسے ضرورت محسوس ہوتی ہے وفاق سے رابطہ کرلیا جاتا ہے اور جو صوبہ کوئی فیصلہ کرتے ہوئے ا س کی ضرورت محسوس نہیں کرتا وہ اپنے طور پر اعلان کرنے اور فیصلے نافذ کرنے میں خود مختار ہے۔ اس لیے وفاقی یا صوبائی حکومتیں تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر کون سے ایجنڈے پر کیا فیصلے کریں گی؟ لگتا ہے دیگر سیاست دانوں کی طرح نواز شریف اپنے ہمہ گیر اور وسیع سیاسی تجربہ کے باوجود یہ سمجھنےسے قاصر ہیں کہ سیاسی پارٹیوں اور حکومتوں کا دائرہ کار مختلف ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ سیاسی پارٹیاں کسی وسیع سیاسی ایجنڈے پر متفق ہوجائیں جس میں سب صوبوں کو درپیش مسائل مشترکہ طور سے طے شدہ طریقہ کے مطابق حل کرنے پر اتفاق کرلیا جائے۔ پھر یہ پارٹیاں ہر اس صوبے میں جہاں ان کی حکومت ہے، ان فیصلوں کا اطلاق کرانے کی ضمانت لیں۔ دریں حالات تو پنجاب حکومت کے طریقے اور نواز شریف کے اس صوبے میں موجودہ کردار کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مرکز میں اپنی ہی پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود پنجاب حکومت وزیر اعظم یا وفاقی حکومت کو ہر معاملے میں اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھتی۔
اس کے علاوہ نوازشریف کے بیان میں اداروں کو سیاسی و حکومتی کانفرنس یا مذاکرات میں شامل کرنے کا مشورہ نہ تو قابل عمل ہے اور نہ ہی قابل فہم ۔ جب سیاسی پارٹیوں میں ہی سر پھٹول کی کیفیت موجود ہوگی تو وہ حکومتوں اور اداروں کے ساتھ بیٹھ کر کون سے معاملات طے کریں گی؟ اداروں کا نام لیتے ہوئے عام طور سے فوج اور عدلیہ کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے۔ یعنی ہائیبرڈ نظام حکومت کے موجودہ فیشن کے مطابق صرف فوج اور حکومت ہی ایک پیج پر نہ ہوں بلکہ سیاسی پارٹیوں اور عدلیہ کو بھی اس ایک پیج پر جمع کرلیا جائے۔ اول تو ایسے کسی اجلاس کا امکان نہیں ہے ۔ پھر بھی ایک اہم سیاسی لیڈر کی طرف سے یہ تجویز اس پہلو سے انتہائی خطرناک اور جمہوریت کی روح کے برعکس ہے کہ اس سے ملکی پارلیمنٹ کا آئینی اختیار کمپرومائز ہوگا۔ ہمارے موجودہ آئینی انتظام کے تحت پارلیمنٹ کو فیصلے کرنے اور ان فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے قانون سازی کا اختیار حاصل ہے۔ اگر کوئی ایسا ادارہ تشکیل دیا جائے گا جس میں منتخب نمائیندوں کی بجائے غیر منتخب لوگ بھی فیصلے کریں گے تو اس سے پارلیمنٹ کا آئینی کردار ختم ہوجائے گا۔ اگر مجوزہ مشترکہ اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کو بعد میں پارلیمنٹ سے منظور کروایا جائے گا تو بھی پارلیمنٹ کے خود مختار کردار کو خود سیاست دان اپنے ہاتھوں سے دفن کرنے کا باعث بنیں گے۔ کیوں کہ پارٹیاں، حکومتیں اور ادارے مل کر جو فیصلے کریں گے ، انہیں کون سا رکن پارلیمنٹ ماننے سے انکار کرے گا؟
اداروں کو منتخب حکومتوں یا جمہوری سیاسی عمل کے ذریعے کردار ادا کرنے والی پارٹیوں کے ساتھ بٹھا کر اگر نام نہاد مفاہمت یا فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے گا تو اس سے آمرانہ طریقے سے ملکی معاملات چلانے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ کون سی سیاسی پارٹی فوج یا سپریم کورٹ کی طرف سے سامنے لائی جانے والی کسی تجویز کو مسترد کرنے کا حوصلہ کرے گی۔ سپریم کورٹ کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی کسی قانون سازی کو خلاف آئین قرار دیتے ہوئے مسترد کرسکتی ہے۔ اگر یہ تصور کرلیا جائے کہ ایسا کوئی اجلاس ہوجاتا ہے اور اس میں سپریم کورٹ کا نمائیندہ کوئی تجویز پیش کرتا ہے لیکن اس سے متصادم کسی رائے پر اتفاق ہوتا ہے۔ پھر سپریم کورٹ کو کیسے پابند کیا جائے گا کہ وہ لازماً اس اتفاق رائے کے مطابق فیصلوں کو مانے؟ کیوں کہ ایسا کرنے کی صورت میں جج اپنے آئینی حلف سے انحراف کے مرتکب ہوں گے جس میں وہ خود مختاری سے آئین کے مطابق اور کسی مداخلت کے بغیر فیصلے کرنے کے پابند ہیں۔
ملکی آئینی انتظام اختیارات کی تقسیم کے جس اصول کو مانتا ہے اس میں پارلیمنٹ، حکومت اور عدلیہ خود مختار اکائیاں ہیں۔ انہیں اپنی مقررہ آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا پڑتا ہے۔ جہاں تک فوج کا تعلق ہے تو اسے محض پاکستان کے دہائیوں پر محیط برے تجربوں یا عملی طاقت کی بنیاد پر باقاعدہ ادارے کی حیثیت دینے سے ملک کا آئینی انتظام زمین بوس ہوجائے گا۔ فوج وزارت دفاع کے تحت ایک محکمہ ہے۔ اسے اسی حد میں واپس جانے اور مقررہ آئینی طریقہ کار کے مطابق کام کرنے پر مجبور کرنا ہی اس وقت پاکستان کی بنیادی ضرورت ہے۔ ا س کے برعکس اگر سیاسی پارٹیاں فوج کو ’ادارہ‘ قرار دے کر اس کی رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کریں گی یا عمران خان کی طرح فوجی قیادت سے بات چیت کے ذریعے اقتدار حاصل کرنا چاہیں گی تو اس سے عوام کی خواہشات و ضروریات پوری کرنا ممکن نہیں ہے۔
پارٹیاں اسی وقت کوئی مشترکہ سیاسی بنیادتلاش کرسکتی جب وہ اصولی طورپر فوج کو سیاست سے علیحدہ رکھنے پر متفق ہوجائیں اور اقتدار کے حصول کے لیے کوئی جھوٹا سچا نعرے لگاتے ہوئے فوج کے کاندھے پر سوار نہ ہوں۔ موجودہ حالات میں نواز شریف سمیت کوئی بھی سیاسی لیڈر یہ اصول ماننے پر آمادہ نہیں ہے۔ اسی لیے وہ قومی مسائل سمجھنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ