لاہور : سابق وزیر اعظم نواز شریف نے لاہور جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فوج کے ’چند جرنیلوں‘ اور عمران خان کی حکومت کی کارکردگی پر کڑی تنقید کی ہے ۔ انھوں نے کہا جنرل عاصم سلیم باجوہ کے امریکہ میں اربوں کے اثاثے کہاں سے آئے، کون پوچھے گا۔ انھوں نے کہا بنی گالا کا محل کیسے تعمیر ہوا۔ انھوں نے پوچھا کہ علیمہ خان کے پاس اثاثے کہاں سے آئے اور فارن فنڈنگ کا کون حساب دے گا۔نواز شریف نے کہا عمران خان کہتا ہے کہ این آر او نہیں دونگا۔ ’تم اور علیمہ خان تو خود ثاقب نثار کے این آر او پر چل رہے ہو۔‘
سابق وزیر اعظم نواز نے کہا کہ اس سارے معاملے کا کیا صرف عمران خان ذمہ دار ہے؟ملک کو برباد کر دیا، 22 کروڑ عوا م کو برباد کر دیا، معیشت کو تباہ کر دیا اور کہا جاتا ہے کہ نام نہ لیں۔آئین کو آپ توڑیں تو کیا میں واپڈا کا نام لوں۔ وزیر اعظم ہاؤس کی دیواریں پھلانگ کے وزیر اعظم کو گرفتار کریں تو کیا نام محکمہ زراعت کا لوں۔جسٹس صدیقی سے نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف فیصلوں کے لیے دباؤ ڈالو تو میں کیا اس کی شکایت جنگلات کو لگاؤں۔ انتخابات چرائے گئے اور آر ٹی ایس بٹھا دیا گیا تو کیا میں اس کی شکایت محکمہ صحت کو لگاؤں۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ چند شر پسند جرنیل یہ سب کر رہے ہیں۔ انھیں اگر یہ بات پسند نہیں ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔نواز شریف کا بیانیہ وہی ہے جو آئینکا بیانیہ ہے جو فوج کے حلف کا بیانیہ ہے، وہی جو قائد اعظم کا بیانیہ ہے، یہی میرا بیانیہ ہے۔آئین کی تابعداری کرو، اپنے حلف کی پاسداری کرو، سیاست سے دور رہو، اپنے ادارے کو سیاسی مقاصد کے لیے مت استعمال کرو، انجنئیرنگ کی فیکٹریاں بند کرو، انتخابات چوری مت کرو، ووٹ کو عزت دو، فوج کو متنازعہ مت کرو۔
جب آپ آئین توڑتے ہیں، جب حلف کی خلاف ورزی کرتے ہیں، جب دس دس سال حکومت کرتے ہیں۔ جب آپ سیاستدانوں کو جیل میں ڈالنے کے لیے مصروف ہو جاتے ہیں۔ وار گیم کھیلنے کے بجائے پولیٹیکل گیم کھیلنے لگ جاتے ہیں تو پھر بجا طور پر عوام کو شکایت ہو گی، پھر سوالات ہوں گے، سوالات پوچھے جائیں گے، اس کا جواب یہ نہیں ہے کہ نام کیوں لیتے ہو۔جب ایک جرنیل ایک جج کے گھر جاتا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو نہیں چھوڑنا، اور جب یہ بات منظر عام پر آتی ہے تو اس جرنیل کے خلاف کیا کارروائی کی جاتی ہے۔ اس کو تو الٹا ترقی دے دی جاتی ہے۔جنھوں نے جذبات میں آ کر آئی جی سندھ کو اغوا کیا۔کیا وہ مریم نواز کا دروازہ توڑ کر اندر داخل نہیں ہوئے۔ کیا ایسے واقعے سے فوج کا وقار اور مرتبہ بلند ہوا۔ میں نام اس وجہ سے لیتا ہوں تا کہ اس کا الزام میری پاک فوج پر نہ لگے، ان مجاہدوں پر نہ لگے تو اس گیم سے دور اپنے وطن کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔کیا ہم انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد چند جرنیلوں کے غلام بن جائیں۔ ایک آزادی 1947 میں ہم نے حاصل کی تھی اور ایک آزادی آج حاصل کرنے کا دن آ چکا ہے۔نواز شریف نے کہا ہمارے ارکان اسمبلی نے خود اپنے استعفے ہمیں دینے شروع کر دیے ہیں اور منفی ہتکھنڈوں کے بجائے ڈٹے ہوئے ہیں۔انھوں نے کہا جب مولانا فضل الرحمان ہدایت دیں گے ہم استعفے دے دیں گے۔
( بشکریہ : بی بی سی )
فیس بک کمینٹ