بابا ! میں ایک سال کا تھا جب آپ کے سائے سے محروم ہوا ۔ اڑ سٹھ سال ہو گئے ہیں مجھے کڑی دھوپ سہتے ہوئے ۔یوں کہنے کو یہ کوئی بہت طویل عرصہ نہیں لیکن مجھے یوں لگتا ہے میں کسی اور تقویم میں زندہ ہوں جہاں وقت کا پیمانہ بہت مختلف ہے ۔
بابا !مجھے تاریخ بتاتی ہے کہ میں آپ کی دعائے نیم شب کا ثمر ہوں اور رمضان کی طاق راتوں میں دنیا میں ظہور پذیر ہوا ۔آپ اپنی بیماری کے باوجود میرے مستقبل کے لئے جدوجہد کرتے رہے اور میرے لئے اتنے وسائل مہیا کر گئے کہ میں انہیں استعمال کر کے اپنے ہم عصروں میں ایک ممتاز حیثیت حاصل کر سکوں ۔لیکن میں نے یہ بھی سُنا ہے کہ آپ نے کہا تھا ”میری جیب میں کھو ٹے سکے ہیں “
بابا !آپ کے انہی کھوٹے سکوں نے ،جن کے لیے جاگیریں اقتدار اور دنیاوی نام و نمود ہی اہم تھا میری پرورش کا ذمہ لیا ۔صرف اسی لئے کہ آپ کی چھوڑی ہوئی دولت پر قبضہ کر کے اپنی زندگیاں بہتر بنا سکیں ۔ اور یہی ہوا ۔میری اہمیت صرف اتنی تھی کہ میں دنیا میں ان کی سر بلندی اور تفاخر کی بنیاد تھا ورنہ آپ کے بیٹے کی حیثیت سے میں ہر گز قابل احترام نہیں تھا
بابا!اسی مفاد کے حصول کے لیے بار ہا میری زندگی کو داﺅ پر لگایا گیا ۔ اور میں چوبیس سال کا کڑیل جوان تھا جب میرا ایک بازو کاٹ دیا گیا ۔آپ کے ان دُشمنوں نے اس سانحے پر خوشی کا اظہار کیا جو میری پیدائش پہ کہتے تھے یہ بہت کمزور ہے اور زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے گا ۔
بابا جانی ! مجھے اپنے چاروں بیٹوں سے بھی بہت سی شکایات ہیں ۔ میں نے ہمیشہ انہیں محبت ،یکجہتی اور ایثار کا درس دیا ۔ میں نے اسلام کے بنیادی قوانین سے انہیں آگاہی دی اور عادلانہ معاشرے کے قیام کے لیے راہِ عمل کا تعین اللہ کی مقدس کتاب کی روشنی میں کیا۔ مجھے نہیں معلوم وہ کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سے میرے بیٹوں کے مزاج میں شدت پسندی آ گئی ۔چاروں بیٹے الحمداللہ مسلمان ہیں لیکن مجھے دُکھ ہوتا ہے یہ بتاتے ہوئے کہ آپ کے محترم دوست کی کہی ہوئی بات حرف بہ حرف درُست ثابت ہو رہی ہے ۔
منفعت ایک ہے اس قوم کا نُقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی،دین بھی،ایمان بھی ایک
حرم وپاک بھی ،اللہ بھی ،قرآن بھی ایک
کُچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
اسلام کے نام پر ہی میرے بیٹوں نے ایک دوسرے کو کافر قرار دینا شروع کردیا ۔ اگر بات صرف فتووں تک رہتی تو اس معاملے کو افہام و تفہیم سے سُلجھایا جا سکتا تھا لیکن وہ تو اپنے اپنے عقائد کو خون سے سینچنے کے عادی ہو گئے ۔ حاسدین نے ان کے جھگڑوں کو اور ہوا دی اور میرے گھر میں ہر طرف بارود کی بو اور خون کے چھینٹے بکھر گئے ۔ میرے بیٹوں نے انہی کو ہمدرد اور خیر خواہ سمجھنا شروع کر دیا جن کے لیے میرا وجود ہی ناقابل برداشت ہے ۔
بابا! میں بہت تھک گیا ہوں ، دُکھ ، مسلسل دُکھ اذیت ، ایک نہ ختم ہونے والی اذیت میری رگ رگ میں اُترتی چلی جا رہی ہے ۔ میرے خاندان کے لوگ اس صورتِ حال پر بہت رنجیدہ ہیں اور اپنی نسل کے لیے بہت فکر مند ہیں جو صلاحیتوں سے مالامال ہے مگر موزوں ماحول نہ ملنے سے مایوسی اور نا اُمیدی کا شکار ہو رہی ہے ۔
بابا ! میری رہنمائی کریں مجھے دُعا دیں ۔ لیکن آپ کی نگاہوں میں یہ حیرانی ،یہ اجنبیت کیوں ہے ۔ لگتا ہے آپ نے مجھے پہچانا نہیں ۔بابا۔۔ میں آپ کا ” پاکستان “ ہوں