دو سال ہو گئے تم گھر نہیں آئے۔۔ کبھی یوں لگتا ہے تمہیں دیکھے ہوئے طویل عرصہ گذر گیا ہے ۔کبھی درد کی شدت یہ کہتی ھے تم ابھی ابھی گئے ہو۔۔ مجھے یاد ہے جب میں شاکر۔رضی اور سہیل رسول کے ہمراہ تمہیں نشتر ہسپتال سے گھر لایا تھا۔۔۔اور تمہارے وجود کو صحن میں رکھ دیا تھا ۔۔۔ تمہاری ماں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ تم یوں اسے چھوڑ کے جا سکتے ہو وہ کسی طور یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ تم چلے گئے ہو اور یہ تمہارا خاکی وجود رکھا ہے۔۔۔
شانی۔۔۔۔ اسے آج بھی یوں لگتا ہے کہ تم کسی لمحے گلی کے کونے سے گھر کی طرف آرہے ہو گے تمہاری آنکھیں موبائل سکرین پر جمی ہوں گی۔۔۔۔۔ تم ماں کو گلی میں پیدل چلتا دیکھ کر اسے اپنے بازو میں لپیٹ لو گے اور کہو گے ۔۔۔ چلو چلو پیدل چلنے سے تم سمارٹ نہیں ہو جاؤ گی۔۔۔ آؤ فروٹ چاٹ کھاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ شانی۔۔۔تم مجھ سے جھجکتے تھے اور ہر بات اپنی ماں سے کہتے تھے۔۔۔۔
چلو ماں کے خواب میں ہی آکر بتادو تم میرے خواب میں کیوں نہیں آتے۔۔۔۔۔
فیس بک کمینٹ