اوسلو : 2018 کا امن کا نوبیل انعام مشترکہ طور پر دولتِ اسلامیہ کے ہاتھوں بربریت کا شکار ہونے والی یزیدی خاتون نادیہ مراد اور کانگو کے ڈاکٹر کو ملا ہے جنھوں نے ریپ کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔نادیہ کو دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں نے ریپ کیا تھا اور ان کے چنگل سے نکلنے کے بعد انھوں نے یزیدی برادری پر ہونے والے ظلم کے خلاف عالمگیر مہم کا آغاز کر دیا تھا۔اس کے علاوہ یہ انعام مشترکہ طور پر افریقی ملک کانگو کے گائناکالوجسٹ ڈینس مُکویگے کو دیا گیا ہے جنھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہزاروں متاثرین کا علاج کیا ہے۔اس سال 331 افراد اور اداروں کو اس انعام کے لیے نامزد کیا تھا جن میں سے نادیہ مراد اور ڈینس مکویگے کا انتخاب ہوا ہے۔ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں انعام کا اعلان کرتے ہوئے نوبیل کمیٹی کے سربراہ بیرٹ رائس اینڈرسن نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ انعام ‘جنسی تشدد کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے کے خلاف جدوجہد’ کے صلے میں دیا گیا ہے۔رائس اینڈرسن نے کہا کہ دونوں انعام یافتگان نے’ایسے جنگی جرائم پر توجہ مرکوز کروانے اور ان کا مقابلہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔’۔اس موقعے پر ملالہ یوسفزئی نے بھی نادیہ مراد کو مبارک باد دی ہے۔ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ملالہ نے لکھا کہ ان کے کام نے زندگیاں بچائی ہیں اور عورتوں کو جنسی تشدد کے خلاف بولنے پر آمادہ کرنے میں مدد دی ہے۔نادیہ مراد نومبر 2014 میں دولتِ اسلامیہ کی قید سے آزاد ہوئی تھیں اور اس کے بعد سے وہ انسانی سمنلنگ کے خلاف مہم چلا رہی ہیں۔
نادیہ مراد کون ہیں؟
نادیہ مراد کا تعلق عراق کی اقلیتی یزیدی برادری سے ہے۔ انھوں نے دولتِ اسلامیہ کے جنگجؤوں کی کنیز بن کر تین ماہ گزارے۔ اس دوران انھیں کئی بار خریدا اور بیچا گیا اور قید کے دوران جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔نادیہ مراد 1993 میں شمالی عراق میں کوہِ سنجار کے علاقے کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئی تھیں۔ 2014 میں دولتِ اسلامیہ کے جنگجو ان کے گاؤں پر چڑھ دوڑے۔ ان کی ماں اور چھ بھائیوں کو قتل کر دیا گیا، جب کہ گاؤں کی بہت سی غیر شادی شدہ لڑکیوں کو کنیزیں بنا کر جنگجوؤں میں تقسیم کر دیا گیا۔انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ‘اس دن پانچ ہزار یزیدی مرد قتل کر دیے گئے اور ساڑھے چھ ہزار عورتوں اور بچوں کو اغوا کر لیا گیا۔ انھوں نے آٹھ ماہ تک ہمیں اپنی ماؤں، بہنوں اور بھائیوں سے الگ رکھا، بعض کو قتل کر دیا گیا اور کچھ غائب ہو گئے۔’بالآخر ایک مسلمان خاندان نے ان کے لیے جعلی شناختی دستاویزات تیار کیں اور اس طرح وہ دولتِ اسلامیہ کے علاقے سے نکلنے میں کامیاب ہو گئیں۔
فیس بک کمینٹ