کولمبو : سری لنکا میں مسلم کش فسادات کے بعد ملک گیر پیمانے پر رات جو کرفیو نافذ کیا تھا اسے جزوی طور پر ہٹا لیا ہے۔لیکن سری لنکا کی پولیس کا کہنا ہے کہ ملک کے شمال مغربی صوبے میں یہ کرفیو مزید نوٹس تک جاری رہے گا۔ان تشدد کے واقعات میں مساجد اور مسلمانوں کی دکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور انھیں نذر آتش کیا گیا ہے جبکہ ایک مسلمان تیز دھار والے ہتھیار سے ہلاک کر دیا گیا ہے۔پولیس نے سینکڑوں فسادیوں کو پسپا کرنے کے لیے متعدد قصبوں میں ہوائی فائرنگ کرنے کے علاوہ اشک آور گیس استعمال کی ہے۔واضح رہے کہ سری لنکا میں گذشتہ ماہ 22 اپریل کو مسیحی تہوار ایسٹر کے موقع پر اسلام پسند شدت پسندوں نے ہوٹلوں اور گرجا گھروں کو نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں 250 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان حملوں کے بعد سے سری لنکا میں کشیدگی کا ماحول ہے۔سری لنکا کے پولیس سربراہ چندنا وکرمارتنے نے ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پولیس افسر فسادیوں کے ساتھ پوری قوت سے نمٹیں گے۔سری لنکا کے وزیرِاعظم رانیل وکرماسنگھے نے بھی لوگوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ تشدد کی وجہ سے گذشتہ ماہ ہونے والے حملوں کی تحقیقات متاثر ہو رہی ہیں۔سری لنکا کی دوکروڑ 20 لاکھ آبادی میں مسلمان دس فیصد ہیں جبکہ وہاں سنہالا بودھ مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہے۔
سری لنکا میں ایسٹر کے موقع پر ہونے والے خودکش حملوں کے بعد سے ملک میں مقیم پناہ گزین شدید خوف کا شکار ہیں۔ ملک کے ساحلی شہر نیگومبو میں 1200 پناہ گزینوں کو کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے جو تشدد کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ان پناہ گزینوں میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسیحی اور احمدی، افغانستان سے تعلق رکھنے والے شیعہ ہزارہ اور ایرانی بھی شامل ہیں جنھیں تین کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔31 مارچ 2019 کے اعدادوشمار کے مطابق سری لنکا میں سیاسی پناہ کے طالب افراد کی تعداد 819 جبکہ پناہ گزینوں کی تعداد 851 تھی۔ان میں سب سے زیادہ افراد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ 733 پاکستانی سیاسی پناہ کے طالب جبکہ 608 پناہ گزین ہیں۔اس کے بعد افغانستان کا نمبر آتا ہے جبکہ دیگر ممالک میں ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ