اسلام آباد : سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف،ان کے بچوں اور اسحاق ڈار کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں میں پاناما کیس میں تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے اسے مسترد کر دیا گیا ہے۔
یہ درخواستیں پیر کی صبح سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ پر سماعت سے قبل جمع کروائی گئیں۔
اعتراضات پر مشتمل درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی حدود سے تجاوز کیا اور جو رپورٹ پیش کی اس میں نام نہاد شواہد شامل کیے گئے ہیں لہذا اس رپورٹ کو اور شریف خاندان کے خلاف درخواست کو مسترد کیا جائے۔ مدعا الیہان کی جانب سے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو جن 13 سوالات کے جوابات معلوم کرنے کو کہا تھا ان پر کوئی کام نہیں کیا گیا اور کمیٹی نے اپنی حدود سے تجاوز کیا۔
عدالت میں جمع کروائے جانے والے اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے اور رپورٹ میں غیر جانبداری کا عنصر موجود نہیں ہے۔
شریف خاندان اور ان کے وکلا نے رپورٹ کی جلد 10 کی نقل حاصل کرنے کی استدعا بھی کی ہے۔ یہ جلد جے آئی ٹی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے خفیہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ شریف خاندان کا کہنا ہے کہ جلد نمبر دس کے حوالے سے اگر نواز شریف کوئی الگ درخواست دائر کرنا چاہیں تو اس کی اجازت بھی دی جائے۔ پاناما کیس میں مزید تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ آنے کے بعد جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے پیر کو اس معاملے کی سماعت دوبارہ شروع کی۔ سماعت کے دوران پہلے مدعیان کے وکلا نعیم بخاری، آصف توفیق اور شیخ رشید نے دلائل دیے جبکہ شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث منگل کو اپنے دلائل دیں گے۔ دلائل کے دوران درخواست گزار عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ اس رپورٹ میں ایسے حقائق سامنے آئے نہیں جن کی دوبارہ تحقیقات کی ضرورت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر عدالت یہ سمجھے کہ اس معاملے میں قانونی موشگافیاں رہ گئی ہیں تو عدالت نواز شریف کو طلب کر سکتی ہے اور ان کا بیان ریکارڈ کیا جا سکتا ہے تاہم اس صورت میں انھیں بھی ان پر جرح کی اجازت بھی ملنی چاہیے۔ سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے لیے جے آئی ٹی کی سفارشات پر عمل درآمد لازم نہیں ہے اور اس معاملے کو قانون کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔
خیال رہے کہ عدالت نے جب 17 جولائی کو اس معاملے کی سماعت کا اعلان کیا تھا تو فریقین سے یہ بھی کہا تھا کہ اب وہ پاناما کیس میں عدالتی فیصلے اور جے آئی ٹی کی رپورٹ پر بات کریں اور ایسے دلائل نہ پیش کیے جائیں جو اب تک دیے جا چکے ہیں۔
فیس بک کمینٹ