اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے اپنے خلاف دائر ریفرنسز کے سلسلے میں وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں دوسری مرتبہ پیش ہوئے تاہم ان پر فرد جرم عائد نہ ہوسکی۔دوسری جانب عدالت میں پیش نہ ہونے پر نواز شریف کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز، داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ناقابلِ ضمانت جبکہ بیٹی مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے۔سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل خوجہ حارث دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل اور بچوں کو فردِ جرم عائد ہونے سے قبل عدالت میں پیش ہونا ہے۔نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر رواں ماہ 9 اکتوبر کو عدالت کے سامنے پیش ہوں گے، جہاں ان پر فرد جرم عائد کی جاسکتی ہے۔اس سے قبل سابق وزیراعظم ایک قافلے کی صورت میں دارالحکومت میں واقع اپنی رہائش گاہ ’پنجاب ہاؤس‘ سے احتساب عدالت پہنچے تھے، جہاں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔نواز شریف کے ہمراہ مسلم لیگ (ن) کے وزراء اور پارٹی رہنما بھی احتساب عدالت پہنچے تاہم کسی بھی رہنما کو عدالت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔احتساب عدالت میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ انہیں رینجرز کی جانب سے عدالت میں داخل ہونے سے روک دیا گیا جس کی اعلیٰ سطح پر انکوائری کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ چیف کمشنر اسلام آباد کی موجودگی میں عدالتی کارروائی کے دوران تمام انتظامی معاملات طے پا گئے تھے تاہم چیف کمشنر نے انہیں بتایا کہ ’اچانک رینجرز نمودار ہوئے ہیں اور انہوں نے عدالت کی سیکیورٹی اپنے ہاتھ میں لے لی ہے‘۔
عدالت میں داخلے کی اجازت نہ دینے پر وزیر داخلہ احسن اقبال نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے رینجرز کمانڈر کو طلب کیا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’رینجرز وزارت داخلہ کے ماتحت ہے لیکن انہیں احکامات کہیں اور سے آرہے ہیں‘۔احسن اقبال نے اعلان کیا کہ وفاقی وزراء کو کمرہ عدالت میں داخل ہونے سے روکنے کے معاملے کی تحقیقات کی جائیں گی اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔دوسری جانب نواز شریف کے وکیل کی جانب سے انہیں عدالتی کارروائی سے استثنیٰ دینے کے لیے ایک درخواست بھی احتساب عدالت میں دائر کی گئی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ نواز شریف اپنی اہلیہ کی علالت کے باعث لندن جانا چاہتے ہیں لہٰذا انہیں عدالت میں پیش ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تاہم اس درخواست پر کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔عدالتی کارروائی کے بعد ان پر فردِ جرم عائد کرنے کے لیے 2 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔
فیس بک کمینٹ