ریاض: معروف جرید ے کرنٹ افیرز ڈائجسٹ نے انکشاف کیا ہےکہ سعودی عرب عنقریب یورینیم کی افزودگی کا پروگرام شروع کررہا ہے۔اس پروگرام کے آغازکے بعد نہ صرف سعودی عرب اپنے جوہری پروگرام کو حتمی شکل دینے میں کا میاب ہوجائے گا بلکہ یورینیم کی افزودگی سے جوہری ہتھیاروں کی پیداوارکے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔
مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور اس کے حریف اسلامیہ جمہوریہ ایران کے درمیان تناؤمیں حالیہ مہینوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور سعودی حکومت سمجھتی ہےکہ یورینیم کی افزودگی ریاست کا حق ہے۔تاہم سعودی عرب کے حکومتی حلقوں کا کہنا ہےکہ موجودہ جوہری پروگرام خالصتا سویلین نوعیت کا ہوگا اور اس کا استعمال صرف پُر امن مقاصد کے لیے ہے۔ سعودی عرب کے سابق انٹیلی جینس چیف شہزادہ ترک الفیصل نے امریکہ میں ایک صحافی کے سوال کے جواب میں سعودی عرب کے جوہری پروگرام پر بات چیت کرنے کی بجائے بار بار ایران کے نیو کلیئر پروگرام کا حولہ دیا اور کہا اگر ایران کا جوہری پروگرام یکسر ختم نہیں ہوتا تو سعودی عرب کو بھی جوہری معاملات پر سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی۔ یادرہےکہ گذشتہ ماہ ابوظہبی میں ایک بین الاقوامی جوہری توانائی کی کانفرنس سے بات چیت کرتے ہوئے کنگ عبداللہ سٹی انرجی پروگرام کے سربرا ہاشم بن عبد اللہ نے کہا کہ شہر کے لیے توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جوہری توانائی کے حصول کی اشد ضرورت ہے۔ کرنٹ افیئرز ڈائجسٹ کے مطابق آئندہ چند ماہ میں جوہری معاونت کے سلسلے میں ریاض کے تل ابیب سے مذاکرات متوقع ہیں ۔یہ مذاکرات امریکہ کے شہر واشنگٹن میں ہوں گے۔ اگر چہ سعودی عرب کے جوہری پروگرام میں اسرائیل کی معاونت طے شدہ ہے۔مگر سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ جوہری توانائی کے پروگرام میں جنوبی کوریا،چین ،فرانس اور روس سے معاونت پر بات چیت جاری ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلے نے ایک بیان میں یہ کہا ہےکہ گذشتہ ہفتوں میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پر میزائیل حملوں کے تمام شواہد سے معلوم ہوتا ہےکہ یمن سے داغے گئے میزائیل ایرانی ساخت کے تھے ۔دریں اثنا سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے واضح کیا کہ یمن کے شیعہ ہو ثی باغیوں کو راکٹ اور اسلحہ کی فراہمی کو براہ راست فوجی جارحیت اورا علان جنگ سمجھاجائے گا ۔گزشتہ برسں اکتوبر میں امریکہ کے صدر ڈونلدٹرمپ نے امریکہ اور ایران کے درمیان طے شدہ جوہری معاہدہ کی تجدید سے انکار کر دیاتھا۔ سعودی عرب خلیجی ممالک میں جوہری پروگرام شروع کرنے والا دوسرا ملک ہے۔ اس سے پہلے متحدہ عرب امارات کا جوہری ری ایکٹر امسال اکتوبر میں مکمل ہو جا ئے گا ۔امارات کے جوہری پروگرام میں اسے جنوبی کوریا کا تعاون حاصل ہے اور امارات نے عالمی برداری کو یقین دلایا کہ جوہری پروگرام صرف پر امن مقصد کے لیے ہے۔ کرنٹ افیئر ز ڈائجسٹ کے مطابق سعودی حکومت نے دعوی کیا ہے کہ توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے دو جوہری ری ایکٹر کی ضرورت ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والے ملک کی جانب سے توانائی کی ضرورت کا دعوی شک کی نگا ہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ عالمی برادری کے لئے یہ بات یقینا باعث تشویش ہو گی اگر سعودی عرب بھی نیوکلیئر ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہو جاتا ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے جوہری پروگرام کے آغاز سےخطہ میں فرقہ واریت کو فروغ ملنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں ۔ایران ،شام، لبنان اور یمن پہلے ہی اس عفریت کی لپیٹ میں ہیں۔
کرنٹ افیئرز ڈائجسٹ کے مطابق سعودی عرب کے جوہری پروگرام کی منصوبہ بندی اکتوبر سے پہلے حتمی شکل اختیار کرلے گی۔
بشکریہ: کرنٹ افیئرز ڈائجسٹ