ملتان۔ (رضی الدین رضی سے )پاکستان میں خلائی ٹیکنالوجی کے ماہراورچاند پرپہلاقدم رکھنے والے نیل آرم سٹرانگ کے رفیق کار عالمی شہرت یافتہ سائنس دان ڈاکٹر سید سرور نقوی کوان کی خواہش پر دریائے راوی کے کنارے بستی لکھمن چونترہ میں سپرد خاک کیاگیا۔یہ بستی کبیروالاسے 32کلومیٹردورجھنگ روڈ پراڈاکوٹ اسلام کے نواح میں واقع ہے ۔ڈاکٹرسرور نقوی گزشتہ چار برس سے کبیروالاکے نواحی علاقے پل باگڑ میں یونیورسٹی آف ایئر سپیس کے ڈرائیور راﺅشاہد کے گھر میں مقیم تھے جسے انہوں نے منہ بولابیٹابنارکھاتھا۔ڈاکٹرسرور نقوی کا25مئی کو 77برس کی عمرمیں انتقال ہوگیاتھاتاہم پاکستان کا ” باخبر“ میڈیاان کی موت سے بے خبررہا۔وفات سے قبل ڈاکٹرسرورنقوی نے اپنی تمام جائیدادبھی اپنے منہ بولے بیٹے راﺅ شاہد کے نام کردی تھی ۔ ڈاکٹر سرور نقوی یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ آف ایئر سپیس سمیت پاکستان میں خلائی تعلیم کے مختلف اداروں سے بھی منسلک رہے اور ان اداروں کے قیام میں ان کی شبانہ روز کاوشوں کا بہت دخل رہا وہ یونیورسٹی آف ایئرسپیس کے بانی کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا بیشتر وقت بیرون ملک گزارا ، ڈاکٹر نقوی نے 1958ءمیں لارنس سکول کراچی سے میٹرک اور ڈی جے سائنس کالج کراچی سے 1960 میں انٹر میڈیٹ کیا۔ 1961 ءمیں وہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی سے بی ایس سی آنرز کے بعد لندن چلے گئے اور باقی تعلیم بیرون ملک حاصل کی۔امریکہ سے مکینیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کے بعد وہ ناسا اور دیگر اداروں سے منسلک ہو گئے۔ناسا میں انہوں نے نیل آرم سٹرانگ کے ساتھ کام کیا۔ وہ اس ٹیم کے رکن تھے جس کی کوششوں سے انسان نے چاند پر پہلا قدم رکھا۔ وہ خلائی شٹل تیار کرنے والی ٹیم کے بھی رکن رہے۔ اسلام آباد میں سپیس یونیورسٹی میں تدریس کے دوران وہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مسلسل تنزلی پردلبرداشتہ ہوئے اور2014ءمیں یونیورسٹی سے استعفیٰ دے کرراﺅشاہد کے ساتھ پل باگڑآگئے ۔راﺅشاہد نے ”اے پی پی “سے بات چیت کرتے ہوئے بتایاکہ ڈاکٹرصاحب کو 2008ءمیں فالج کاحملہ ہواتھاتاہم وہ صحت یاب ہوگئے تھے ۔اپنے بیٹے عارف نقوی کی موت کے بعد وہ شدیدصدمے کی کیفیت میں رہے ان کے دیگرتین بیٹے بیرون ملک مقیم ہیں ۔ڈاکٹرسرورنقوی نے 2شادیاں کیں اوران کی دونوں بیگمات کاانتقال ہوچکاہے ۔راﺅشاہدنے مزید بتایاکہ ڈاکٹرسرورنقوی نے تدریس کاسلسلہ جاری رکھنے کےلئے ملتان اورکبیروالاکے کچھ نجی اداروں سے بھی رابطہ کیاتھالیکن انہیں کوئی حوصلہ افزاءجواب نہ ملا۔انہوںنے بتایاکہ ڈاکٹرنقوی امریکہ میں مقیم اپنے بچوں کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے ،ان کی ان کے ساتھ گفتگو بھی ہوتی تھی لیکن 2004ءمیں امریکہ سے آنے کے بعد وہ دوبارہ امریکہ نہیں گئے ۔راﺅشاہد نے یہ بھی بتایاکہ پل باگڑآنے سے پہلے وہ اردوبھی انگریزی لہجے میں بولتے تھے لیکن چارسال یہاں قیام کے دوران انہیں سرائیکی بھی بولنا آگئی تھی۔