نئی دہلی : بھارتی وزارت خارجہ نے انڈیا اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان نیو یارک میں مجوزہ ملاقات منسوخ کر دی ہے۔دوسری جانب پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ (انڈیا) خود کہتے ہیں کہ وہ دہشت گردی پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ ہم بھی بات کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اب وہ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔‘’ہمارے پاس بھی شواہد موجود ہیں کہ بلوچستان میں کچھ عناصر بدامنی پھیلا رہے ہیں لیکن ان سب کے باوجود ہم عوام کے لیے آگے بڑھنا اور بات کرنا چاہتے تھے۔‘جمعے کو نئی دہلی میں انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان نیو یارک میں مجوزہ ملاقات منسوخ کر دی گئی ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ملاقات کے اعلان کے بعد رونما ہونے والے بعض واقعات سے پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان کا اصلی چہرہ سامنے آگیا اور اب نیو یارک میں دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات نہیں ہوگی، کیونکہ اس ملاقات کا کوئی مطلب باقی نہیں رہ جاتا۔‘دلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا کہ ’(اس اعلان کے بعد) ہمارے سکیورٹی اہلکاروں کو پاکستان سے سرگرم عناصر نے بربریت کے ساتھ قتل کیا ہے اور پاکستان نے دہشت گردی اور دہشت گرد کے اعزاز میں 20 ڈاک ٹکٹ جاری کیے۔۔۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نہیں سدھرے گا۔‘انھوں نے کہا کہ ’اب یہ لگ رہا ہے کہ بات چیت کی اس تجویز کے پیچھے پاکستان کے ناپاک ارادے ہیں جو اب سامنے آگئے ہیں۔۔۔ نئے وزیراعظم کا اصلی چہرہ سامنے آگیا ہے، وہ بھی ان کے دور اقتدار کے ابتدائی دور میں ہی۔`پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے نجی ٹی وی چینلز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا موقف ہے کہ امن ہونا چاہیے لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انڈیا داخلی دباؤ کا شکار ہے اور اندرونی دباؤ کے نتیجے میں مذاکرات سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ’ انڈیا کی کابینہ ایک صفحے پر نہیں ہے اور اندرونی طور پر یکسو نہیں ہے جس کی وجہ سے امن پسند عناصر نے مذاکرات کی حمایت کی لیکن آج شدت پسند عناصر حاوی ہو گئے اور مذاکرات معطل کر دیے۔‘خیال رہے کہ جمعرات کو انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی اس تجویز کو انڈیانے تسلیم کر لیا ہے کہ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نیو یارک میں ہونے والے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ملاقات کریں۔لیکن انھوں نے کہا تھا کہ اس ملاقات کو بات چیت کا باقاعدہ آغاز نہیں سمجھا جانا چاہیے، اور یہ کہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں انڈیا کی پالیسی بدستور قائم ہے۔دوسری جانب وادی کشمیر کے شوپیاں میں جمعے کو ہی تین پولیس والوں کی لاشیں ملی ہیں جنھیں عسکریت پسندوں نے اغوا کر لیا تھا۔ اس کے علاوہ منگل کو جموں سیکٹر میں سرحد کےقریب بارڈر سکیورٹی فورس کے ایک حوالدار کو ہلاک کیا گیا اور اطلاعات کے مطابق ان کی لاش کو مسخ کیا گیا تھا۔ لیکن اس کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی گئی ہے۔اس پس منظر میں حکومت کے لیے نیو یارک کی ملاقات کا جواز پیش کرنا بظاہر مشکل ہو رہا تھا جس کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔انڈیا کا موقف یہ رہا ہے کہ دہشت گردی اور مذاکرات ایک ساتھ جاری نہیں رہ سکتے۔ملاقات کے اعلان کے بعد سے ہی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ حزب اختلاف کے رہنما اور ٹی وی چینل یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ باہمی رشتوں میں آخر کیا بدلا ہے کہ پاکستان کو سبق سکھانے کا دعوی کرنے والی بی جے پی کی حکومت اب اس ملاقات کے لیے تیار ہوگئی ہے۔پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے 14 ستمبر کو وزیراعظم مودی کو ایک خط لکھا جو دلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر نے 17 ستمبر کو حکومت کے سپرد کیا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے وزیر خارجہ کا بھی ایک خط تھا جو وزیر خارجہ سشما سواراج کے نام تھا۔عمران خان نے اپنے خط میں تین اہم باتیں کہیں۔ پاکستان سارک سربراہی اجلاس کی بحالی چاہتا ہے، اور اگر ایسا ہوا تو وزیراعظم نریندر مودی کو پاکستان جانے کا موقع ملے گا، پاکستان دہشتگردی کے مسئلے پر بات کرنے کے لیے تیار ہے اور بات چیت کیسے شروع کی جائے اس بارے میں بات کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کو نیو یارک میں ملاقات کرنی چاہیے۔اس سے پہلے وزیراعظم مودی نے بھی انتخابات میں عمران خان کی کامیابی کے بعد انھیں ایک خط لکھ کر ’تعمیری اینگیجمنٹ‘ کی پیش کش کی تھی۔ عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ وہ بھی وزیراعظم مودی کے اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ ’تعمیری اینگیجمنٹ‘ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔جمعرات کو اور اس تعمیری اینگیجمنٹ کی پیش کش کے بعد بھی انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے یہ کہا گیا کہ یہ نہ بات چیت کے عمل کا آغاز ہے اور نہ جامع مذاکرات بحال کرنے کی پیش کش۔اس ملاقات میں کسی ٹھوس پیش رفت کی توقع نہیں تھی لیکن ملنے کے فیصلے کو ہی ایک بڑی کامیابی مانا جارہا تھا۔
( بشکریہ : بی بی سی )
فیس بک کمینٹ