اسلام آباد : پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ امریکی جیل میں قید پاکستانی شہری عافیہ صدیقی نے اپنی رحم کی اپیل پر دستخط کر دیے ہیں اور اُن کی اپیل امریکی جیل حکام کے ذریعے امریکی صدر کو بھجوا دی گئی ہے۔ جمعرات کو سینیٹ کے اجلاس کے دوران وقفہ سوالات کے دوران وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے ایوان بالا کو آگاہ کیا کہ امریکی جیل میں قید پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پہلے امریکی صدر کے نام رحم کی اپیل پر دستخط کرنے پر چند تحفظات تھے، تاہم اب انھوں نے اس درخواست پر دستخط کر دیے ہیں۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو جولائی 2008 میں افغانستان کے سکیورٹی اداروں نے گرفتار کیا تھا اور ان کے قبضے سے کیمیائی اجزا کی تراکیب اور چند ایسی تحریریں برآمد ہوئی تھیں جن میں نیویارک حملے کا ذکر تھا۔ بعدازاں انھیں امریکی فوجیوں پر حملہ کرنے کے الزامات کے تحت 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جگہ سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ عافیہ صدیقی کا اپنے وکلا اور اہلخانہ سے ای میل کے ذریعے رابطہ ہے۔
ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے دعوؤں سے متعلق ان کے پاس کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے رحم کی اپیل نہیں امریکی قوانین کے مطابق ’کمیوٹیٹشن پارڈن‘ یعنی سزا معافی کی درخواست دی تھی، ان دونوں میں کچھ فرق ہے۔ یعنی سزا معافی کی درخواست کے مطابق جتنی سزا باقی رہ گئی ہے اس کو صدارتی اختیارات کے تحت معاف کیا جا سکتا ہے۔ لہذا یہ رحم کی اپیل نہیں تھی۔’
ڈاکٹر فوزیہ نے بتایا کہ ’ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے سزا معافی کی درخواست پر ماضی میں دو مرتبہ دستخط کیے ہیں، ایک مرتبہ صدر اوباما کے دور حکومت میں اور دوسری مرتبہ گذشتہ برس دسمبر میں سزا معافی کی درخواست دی گئی ہے۔‘
انھوں نے حکومت پاکستان پر الزام عائد کیا کہ دونوں مرتبہ حکومت نے ان کی رہائی کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات اور کوشش نہیں کی۔‘
ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر عافیہ کی سزا معافی (نہ کہ رحم کی اپیل) کی درخواست تیار کروانے کے لیے میں نے بہت سی رقم خرچ کی، اور دسمبر میں عافیہ کے دستخط کے بعد حکومت نے مجھ سے یہ درخواست لیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ اس کو انفرادی طور پر بھجوائیں گی تو اس کی وہ اہمیت نہیں ہو گی جو بطور ملک حکومت کی طرف سے اس درخواست پر بھجوانے پر ہو گی۔ لہذا میں نے نہ صرف ان کو ڈاکٹر عافیہ کی وہ دستخط شدہ درخواست دی بلکہ امریکہ میں موجود اپنے وکلا سے بھی مکمل تعاون کرنے کے لیے کہا۔‘
ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا تھا کہ کیونکہ یہ سزا معافی کی درخواست تھی اسے امریکی محکمہ خارجہ کے ذریعے ‘پارڈن اٹارنی’ کے پاس جانا چاہیے تھے، لیکن میں نے حکومت سے رواں برس مارچ میں درخواست کے متعلق پوچھا تو مجھے جواب دیا گیا کہ ہم درخواست جمع کروا رہے ہیں۔‘انھوں نے حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں مہینوں ان سے مسلسل درخواست کے متعلق پوچھتی رہی لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔‘
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ