چند روز قبل محترم ڈاکٹر عباس برمانی سے بات چیت کے دوران پتہ چلا کہ جناب مہدی لغاری نے اس احقر کیلئے اپنے ناول "عشق آباد سے اشک آباد ” کا ایک ڈاکٹر صاحب کے ہاں چھوڑا ہے . پہلی داد مصنف کو کتاب کے عنوان کے انتخاب پر بنتی ہے. کیونکہ عشق کا اشکوں سے جو تعلق ہے وہ عشاق اور صاحب حال لوگوں سے مخفی نہیں . اس کتاب کے پہلے چھ ابواب پر تبصرہ تو الگ سے کیا جائے گا کیونکہ اس کے سارے کردار مجھے میرا بچپن اور آس پاس کی یاد دلا رہے تھے.بسا اوقات عشق آباد کے وہ کردار مع اپنے ناموں کے میرے سامنے چلتے پھرتے نظر آنے لگتے .
آج اس کتاب کے ایک باب ” تحت الضمیر ” پر چند باتیں کرنا چاہوں گا اس کتاب کے باب (تحت الضمیر) کا مرکزی خیال ایک علامتی بستی "عشق آباد” کے ذریعے طبقاتی نظام، سماجی بے چینی، اور انصاف کے بحران کو فلسفیانہ گہرائی میں بیان کرتا ہے۔
"منظور حسین نے کان کے پیچھے سے قلم نکالا اور دو زانو ہو کر نیم سجدگی میں ایک کاغذ زمین پر بچھایا اور لکھنا شروع کیا۔۔ منکہ مسمی منظور حسین با قائمی ہوش و حواس برائے ملاحظہ بستی عشق آباد اپنے خواب کی زمین سے روانہ ہوا اور پہنچا علی الصبح بستی مذکورہ میں تو پایا کہ عشق آباد کا اجتماعی دماغ پریشان تھا۔”
منظور حسین کا "خواب کی زمین” سے "عشق آباد” پہنچنا اس بات کی علامت ہے کہ حقیقت (عشق آباد) اور تصور (خواب) آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ عشق آباد کی دنیا ایک ٹھوس حقیقت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ذہنی کیفیت بھی ہے۔
"اجتماعی دماغ پریشان تھا” کا جملہ کارل ینگ کے "اجتماعی لاشعور” (Collective Unconscious) کے نظریے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ معاشرے کے تمام افراد انفرادی طور پر مختلف ہونے کے باوجود ایک مشترکہ ذہنی اور نفسیاتی بے چینی کا شکار ہیں۔منظور حسین ایک مبصر یا تاریخ دان کا کردار ادا کر رہا ہے جو معاشرے کی حالت کو قلم بند کرنے بیٹھا ہے۔ اس کا "نیم سجدگی” میں بیٹھنا اس عمل کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ اجتماعی دماغ کی پریشانی کی جڑیں اکثر طبقاتی تفریق اور ناانصافی میں ہوتی ہیں، جہاں ایک طبقہ دوسرے کا استحصال کرتا ہے اور پورے معاشرے کا سکون غارت ہو جاتا ہے۔ یہ پریشانی امیر اور غریب دونوں کو متاثر کرتی ہے، لیکن اس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔
"عشق آباد کے سارے لوگ جاگ گئے تھے۔ مرد، عورتیں، بچے ۔۔۔مزدور تیشے لیکر… ہنر مندوں نے اپنے اوزار نکالے… عورتیں سلائیاں لے کر… کمہار… ترکھان…لوہار… کسان… گدھوں کو خوراک کے بدلے وزن ڈھونے پہ مقرر کر دیا گیا…”
یہ حصہ معاشرتی ڈھانچے اور محنت کی تقسیم کو بیان کرتا ہے۔ اس حصے میں مہدی لغاری کے چابک دست قلم نے اس معاشرے کے منہ پر تھپڑ اور اس کی جان پر کوڑے برسائے ہیں . کارل مارکس کے نظریہ محنت کی تقسیم (Division of Labor) اور بیگانگی (Alienation) کو بہترین مثالوں سے بیان کیا ہے ہر طبقہ (مزدور، کسان، کاریگر) ایک مخصوص کام میں جکڑا ہوا ہے۔ وہ اپنی محنت کے پھل سے بیگانہ ہے اور ایک مشین کے پرزے کی طرح کام کر رہا ہے۔ حتیٰ کہ جانوروں کو بھی اسی معاشی نظام کا حصہ بنا دیا گیا ہے، جو استحصال کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں جانوروں سے مراد یہی مزدور اور کاریگر ہیں.
لوگ صرف "جی رہے ہیں” لیکن اپنی زندگی کا مقصد اور معانی تلاش نہیں کر پا رہے۔ وہ اپنے کاموں میں مصروف تو ہیں لیکن ایک گہری بے چینی اور لاتعلقی کا شکار ہیں۔ یہاں مہدی لغاری طبقاتی نظام کی واضح تصویر کشی کرتے ہیں ۔ یہاں ہر فرد کی شناخت اس کے کام سے ہے۔ مزدور، کسان اور کاریگر پیداواری طبقے (Proletariat) کی نمائندگی کرتے ہیں جو اپنی بقا کے لیے روزانہ جدوجہد کرتے ہیں۔ دکاندار ایک درمیانے طبقے کی علامت ہیں جو مزدوروں کی محنت پر انحصار کرتے ہیں۔ اس نظام میں ہر کوئی ایک دوسرے سے جڑا تو ہے لیکن یہ تعلق برابری کی بجائے ضرورت اور استحصال پر مبنی ہے۔
"اس انصرام میں سب کے جسم اور دل اور آنکھیں اور دماغ جدا جدا سمتوں میں سفر پر تھے۔.. مزدوروں کو خوابوں سے کوئی علاقہ نہ تھا… ترکھانوں کو درختوں کے مرنے کا کوئی غم نہ تھا… قیمتیں کاریگروں کو محتاج بنا دیتی ہیں۔..”
یہاں مہدی لغاری معاشرتی نظام کے نفسیاتی اثرات کو بیان کرتا ہے۔مارکس کے مطابق، سرمایہ دارانہ نظام میں انسان اپنی محنت، فطرت، اور اپنے ساتھی انسانوں سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ ترکھان کا درخت کے مرنے پر غم نہ کرنا اس کی فطرت سے بیگانگی ہے۔ مزدور کا خواب نہ دیکھنا اس کی اپنی ذات اور خواہشات سے بیگانگی ہے۔
"قیمتیں کاریگروں کو محتاج بنا دیتی ہیں”
یہ جملہ معاشی جبریت کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں معاشی حالات فرد کی آزادی اور صلاحیتوں کو محدود کر دیتے ہیں۔ کمہار بہترین کاریگر ہو سکتا تھا، لیکن ضرورتوں نے اس کے ہنر کو قید کر دیا ہے۔
محنت کش طبقے کے پاس خواب دیکھنے یا جمالیاتی حس سے لطف اندوز ہونے کا وقت اور ذہنی سکون نہیں ہے۔ ان کی زندگی کا واحد مقصد بقا ہے۔ دوسری طرف، ہنرمند اور کاریگر بھی معاشی نظام کے غلام ہیں، جہاں ان کے ہنر کی قیمت بازار طے کرتا ہے، نہ کہ ان کی قابلیت۔ یہ نظام فرد کی تخلیقی صلاحیتوں کو ختم کر کے اسے صرف ایک معاشی اکائی بنا دیتا ہے۔
یخ بستہ اور خنک ہوا چلی… اے اہل عشق آباد مزاج شناسی کی قسم سب کے اپنے اپنے ازل ہیں… حال کی گھڑی حقیقت ہے… رمضان موچی اور خان بہادر نے برابر مقدار میں سانس لی…
فطرت (ہوا) ایک آفاقی پیغام لے کر آتی ہے۔ ہوا کا پیغام کہ "سب کے اپنے اپنے ازل ہیں” اور "حال کی گھڑی حقیقت ہے” ایک طرح سے جبریت اور وجودیت کا امتزاج ہے۔ یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہر چیز اپنی جگہ پر طے ہے، اسے قبول کر لو۔ رمضان موچی (نچلا طبقہ) اور خان بہادر (اعلیٰ طبقہ) کا برابر سانس لینا اس آفاقی سچائی کی علامت ہے کہ فطرت کی نظر میں سب برابر ہیں۔ سماجی تفریق انسان کی خود ساختہ ہے۔
یہاں طبقاتی تفریق کو فطری برابری کے سامنے رکھا گیا ہے۔ اگرچہ فطرت (ہوا، خوشبو) سب کو یکساں طور پر میسر ہے، لیکن سماجی نظام نے انسانوں کے درمیان دیواریں کھڑی کر دی ہیں۔ "خان بہادر” اور "رمضان موچی” دو مختلف طبقات کے نمائندے ہیں، جن کی سماجی حیثیت میں زمین آسمان کا فرق ہے، لیکن فطرت ان میں کوئی امتیاز نہیں کرتی۔ یہ اس بات پر ایک گہرا طنز ہے کہ انسان نے فطرت کے اصولوں کے برعکس ایک غیر منصفانہ نظام قائم کیا ہے۔
"…دلبروں کے یزداں نے رمضان موچی کے دل کو پتھر کا کر دیا… خان بہادر کو ہمیشہ کے لیے پابندِ خدمت اور شرمساری کی سزاسنادی… جنت کو انصاف اور سچ کی تلاش میں سرگردانی سے نجات دلائی گئی اور جھوٹ کو تسلی کے بھیس میں اتارا گیا…”
یہاں طاقت کا بیانیہ (Narrative of Power) واضح ہے۔ طاقتور طبقہ ("دلبروں کے یزداں”) اپنے مفاد کے مطابق انصاف کی تشریح کرتا ہے۔ سچ کو خطرناک سمجھ کر دبا دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ ایک "تسلی بخش جھوٹ” رائج کر دیا جاتا ہے۔ یہ نظریہ مِشل فوکو (Michel Foucault) کے خیالات سے قریب ہے کہ طاقت ہی سچ کو تخلیق کرتی ہے۔
”ننگے سچ کی بے لباسی گناہ گاروں کو تو بہ نہیں کرنے دیتی”۔
مہدی خان نے اس جملہ میں انسان کی نفسیات بیان کی ہے . یہ جملہ مذہب کی زبان میں بیان کیا جائے تو شیطان کا سب سے اہم ٹول ہی یہی ہے برائی کے دوام کے لیئے کہ عزت اور ناموس ہی توبہ کی راہ میں رکاوٹ ہے. پھر چاہے وہ شیطان انسانوں میں سے ہوں یا جنوں میں سے . یہ جملہ اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ طاقتور طبقہ اپنی غلطیوں کا سامنا کرنے سے ڈرتا ہے، اس لیے وہ سچ کو ہی چھپا دیتا ہے تاکہ اسے اپنے گناہوں پر شرمندہ نہ ہونا پڑے۔
رمضان موچی (مظلوم) کو مزید بے حس بنا دیا جاتا ہے، جبکہ خان بہادر (ظالم/طاقتور) کو ایک نمائشی سزا دی جاتی ہے۔ "جنت” (جو شاید سچائی یا انصاف کی متلاشی تھی) کو اس کی جدوجہد سے "نجات” دلا کر خاموش کر دیا جاتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ نظام انصاف ہمیشہ طاقتور کے حق میں ہوتا ہے اور غریبوں کو تسلیاں دے کر بہلایا جاتا ہے تاکہ وہ بغاوت نہ کریں۔
"سرد ہوا کے جھونکوں نے بحکم سرکار یہ کلام پہنچایا… پیغام کو خواب جاننے میں آسانی ہوئی… سانپوں نے ان کا راستہ روکا ہوا تھا… کیکر کے کانٹوں نے گلہ کیا… درختوں نے جھوم جھوم کر کہا ہم نے تو جو پایا بانٹ دیا برابر سب میں… عشق آباد کا اجتماعی دماغ بے چین تھا۔۔”
یہاں ریاستی بیانیے اور اس کے خلاف فطری اور اجتماعی ردِ عمل کو دکھایا گیا ہے۔ بحکم سرکار” یہ پیغام پہنچانا ریاست کے پراپیگنڈے (Propaganda) کی علامت ہے۔ لوگ اسے "خواب” سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عوام ریاستی بیانیے پر مکمل یقین نہیں کرتے لیکن اس کے خلاف مزاحمت بھی نہیں کر پاتے۔ فطرت کے عناصر (کیکر، درخت، سانپ) معاشرے کی ناانصافی پر اپنا ردِ عمل ظاہر کر رہے ہیں۔ درختوں کا یہ کہنا کہ "ہم نے تو جو پایا بانٹ دیا” انسان کے بنائے ہوئے طبقاتی نظام پر ایک طنز ہے جہاں وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہے . ریاستی حکم نامہ (سرکاری کلام) طاقتور طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، جسے عوام پر مسلط کیا جاتا ہے۔ فطرت میں بھی کشمکش (سانپ اور گلہری، بھیڑیا اور ہرن) شروع ہو جاتی ہے، جو معاشرے میں جاری طبقاتی کشمکش کا عکس ہے۔ "اجتماعی دماغ” کی بے چینی برقرار رہتی ہے کیونکہ جھوٹ پر مبنی تسلیاں حقیقی مسائل کا حل نہیں کر سکتیں۔
"بندہ بشر سوبانی کے قتل کا چشم دید گواہ ہے… رجسٹر شکایات کی کھوج نہ لگائی گئی… مانا گیا کہ راکھ ہو گیا تھا سر کار کا رجسٹر اور عوام الناس کا اعتبار… کچھ جن ولد نا معلوم اُٹھائے گئے… معلومات دینے سے چونکہ انکاری ہیں حاضر بقید حیات…”
البرٹ کامیو (Albert Camus) کے فلسفہء لایعنیت کی طرح، یہاں صورتحال بالکل بے معنی اور مضحکہ خیز ہو چکی ہے۔ قتل ہوا ہے، گواہ موجود ہے، لیکن انصاف کا ادارہ (رجسٹر شکایات) ہی غائب ہے۔ نظام انصاف مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ سچائی اور علم تک رسائی ناممکن ہو گئی ہے۔ جب ریکارڈ ہی جلا دیا جائے اور "نامعلوم” لوگوں سے پوچھ گچھ کی جائے تو حقیقت کبھی سامنے نہیں آسکتی۔
جب ناانصافی حد سے بڑھ جاتی ہے تو ریاست اور اس کے ادارے (جیسے عدالتی نظام) عوام کا اعتبار کھو دیتے ہیں۔ "رجسٹر کا راکھ ہونا” علامتی طور پر انصاف کے خاتمے اور ریاست کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ غریب اور نامعلوم افراد کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے، جبکہ اصل مجرم آزاد رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسے معاشرے کی تصویر ہے جہاں قانون صرف کمزوروں کے لیے اور طاقتور اس سے بالاتر ہیں۔
( جاری ہے )
فیس بک کمینٹ

